احکام تجارت

*   مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

اذانِ جمعہ کے بعد چیز بیچنے کا حکم

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کا جمعہ کی نماز پڑھ کر اس دکاندار سے خریدنا کیسا جس نے ابھی جمعہ کی نماز نہیں پڑھی جبکہ اس مسجد میں اذان بھی ہوچکی ہے جس میں دکاندار جمعہ پڑھے گا؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : اگرچہ خریدار خود جمعہ پڑھ چکا ہے لیکن پوچھی گئی صورت میں اس دکاندار کا چونکہ مال بیچنا جائز نہیں اور جمعہ کی سعی کرنا اس پر واجب ہو چکا ہے لہٰذا اس سے خریداری کرنا اس کو گناہ کے کام میں مدد دینا ہے اور ایسا کرنا جائز نہیں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پراڈکٹ کے ساتھ آنے والا انعام دکاندار کا خود رکھ لینا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض اوقات کمپنی کی طرف سے مختلف پراڈکٹس پر کوئی ایکسٹرا چیز مثلاً کیچپ ، جیم یا کسٹرڈ وغیرہ کا ساشہ لگا ہوتا ہے جو کمپنی بطورِ اسکیم گاہک کو دینے کے لئے لگاتی ہے تو ہم وہ ساشے اتار کر علیحدہ سے اپنی دکان پر بیچتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا ہمارے لئے جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : خریدوفروخت کے بنیادی اصولوں میں سے ہے کہ جب ایک آدمی کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ اس چیز کا مالک بن جاتا ہے اور اس میں اپنی مرضی سے کوئی بھی جائز تصرف کرسکتا ہے اس پر وہ بیچنے والے کو جوابدہ نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پرایک شخص نے کوئی مکان خریدا اور مکان اس کے نام ٹرانسفر ہوگیا تو اب بیچنے والا اسے اس بات کا پابند نہیں کرسکتا کہ یہ مکان میرے فلاں رشتہ دار کو ہی کرایہ پر دو یا جب بیچنا ہو تو مجھے ہی بیچنا ، کیونکہ جب خرید و فروخت مکمل ہوگئی تو دونوں لاتعلق ہوگئے اب خریدار پر اس طرح کے کوئی حقوق عائد نہیں ہوں گے۔

اس اصول کی روشنی میں دیکھیں تو حکم واضح ہوجاتا ہے کہ دکاندار کے پاس کوئی پراڈکٹ آتی ہے جس کے ساتھ انعام بھی جڑا ہوا ہے تو جب دکاندار نے یہ پراڈکٹ خرید لی تو انعام اس خریداری ہی میں شامل ایک چیز ہے اور خریدنے والے دکاندار کی ملکیت میں وہ چیز آجائے گی اب اس پر لازم نہیں کہ جو گاہک اس سے وہ چیز خریدے اسے انعام بھی ساتھ دے۔ اگر وہ انعام اپنے گاہک کو نہیں دیتا تو کسی شرعی جرم کا مرتکب قرار نہیں پائے گا۔ لیکن کاروباری اخلاقیات کی رُو سے دیکھا جائے تو یہاں مارکیٹنگ ٹولز ہوتے ہیں جن کو فالو کرنے میں دکاندار ہی کا فائدہ ہے کیونکہ جب کمپنی کوئی انعامی اسکیم لانچ کرتی ہے تو اس کی بھرپور تشہیر کرتی ہے تاکہ وہ گاہک جو کسی اور کمپنی کی چیز خرید رہا ہے انعامی اسکیم کی وجہ سے ہماری کمپنی کی طرف راغب ہو اور کمپنی کی سیل میں اضافہ ہو۔ اب اگر دکاندار وہ انعام گاہک کو نہ دے توکمپنی کی سیل میں اضافہ نہیں ہوگا اور وہ چیز کم بکے گی تو دکاندار کو نفع بھی کم ہوگا۔ لیکن اگر وہ اسکیم کے مطابق انعام بھی گاہک کو ساتھ دے تو نہ صرف کمپنی کی سیل میں اضافہ ہوگا بلکہ خود دکاندار کو بھی اس کا فائدہ ہوگا کہ اس کی بھی آمدنی بڑھے گی نیز کمپنی کا وہ اسکیم لانچ کرنے کا مقصد بھی پورا ہوگا۔ لہٰذا کاروباری اخلاقیات کا تقاضا یہ ہے کہ کمپنی کی طرف سے جو چیز جس حالت میں آرہی ہے اسی حالت میں گاہک کو دی جائے اسی میں کاروباری فائدہ بھی ہے۔

نوٹ : اس جواب میں اصل چیز کے ساتھ شامل چیز کو عرفاً انعام کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے لیکن فقہی حقیقت کے تعلق سے یہ بھی مبیع ہی کا حصہ ہے لہٰذا جب یہ پتا ہو کہ فلاں فلاں چیز اتنے میں ہے تو مجموعی طور پر دونوں کا خریدنا ہی مقصود ہوگا اور جب انعام والی چیز شامل نہ ہو تو مبیع ایک ہی چیز پر مشتمل ہوگی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

کیا کمیشن کا کام غلط ہے؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ کمیشن کا لفظ تو عام طور پر رشوت کے لَین دَین میں استعمال ہوتا ہے کیا اس کی حلال صورت بھی ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : ایک لفظ کئی مواقع پر استعمال ہوتا ہو تو ہر جگہ اس کا جو معنیٰ بنتا ہے وہ سامنے رکھنا ضروری ہے جیسا کہ لفظِ حرام ، ولدِ حرام (ناجائز بچے) کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور مسجدِ حرام کے لئے بھی لیکن موقع اور پسِ منظر متعین کرتا ہے کہ یہاں کیا مراد ہے۔ کمیشن یا بروکری وہ ذریعۂ آمدنی ہے جس میں اپنی محنت کے ذریعے ایک سروس دی جاتی ہے اور شرعی ضابطے پورے کرتے ہوئے اس ذریعے سے روزی کمانا حلال ہے اور یہ طریقۂ  آمدنی صدیوں سے رائج ہے اور کسی دور میں بھی علماء نے اس کو حرام نہیں کہا۔ البتہ رشوت کو کمیشن کہنے سے رشوت حلال نہیں ہوگی بلکہ وہ حرام ہی رہے گی۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

چائے کی پتی کو چمڑے کے رنگ سے رنگنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارا چائے کی پتی کا کاروبار ہے ، ہم چائے کی پتی کو چمڑا رنگنے کے رنگ سے رنگ کر ہول سیلر اور ریٹیلر افراد کو بیچتے ہیں۔ ہمیں متعلّقہ شعبہ افسران کو بسا اوقات رشوت بھی دینی پڑتی ہے۔ پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا طریقے کے مطابق کارخانہ چلانا اور چائے کی پتی کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : آپ کا پتی کو چمڑے کا رنگ کرنا شرعاًجائز نہیں۔ کیوں کہ اس میں دھوکا دہی اور مسلمان کو ضَرر پہنچانے کا معاملہ موجود ہے نیز ایسا کرنا قانونی طور پر جُرم ہے۔ نا حق بات کے لئے رشوت دینا حرام ہے دھوکا دہی اور رشوت دینے کے معاملہ پر سچّی توبہ کریں۔

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

گوبر اور پاخانہ کو بیچنا کیسا؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گوبر اور پاخانہ کی خریدوفروخت کرنا کیسا ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

جواب : گوبر کی بیع کرنا صحیح ہے۔ البتہ انسان کے پاخانہ کی بیع کرنا جائز نہیں ہاں اگر اس میں مٹی یا راکھ مل کر غالب ہوجائے تو اس کی بیع بھی جائز ہے۔ صدرُالشریعہ  علیہ الرَّحمہ  ارشاد فرماتے ہیں : “ انسان کے پاخانہ کا بیع کرنا ممنوع ہے ، گوبر کا بیچنا ممنوع نہیں۔ انسان کے پاخانہ میں مٹی یا راکھ مِل کر غالب ہوجائے ، جیسے کھات (کھاد) میں مٹی کا غلبہ ہوجاتا ہے تو بیع بھی جائز ہے اور اس کو کام میں لانا مثلاً کھیت میں ڈالنا بھی جائز ہے۔ “ (بہارشریعت ، 3 / 478)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلّ  وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   دارالافتاء اہلِ سنّت نورالعرفان ، کھارادر ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code