بے رحم؛ قابلِ رحم نہیں ہوسکتا

حدیث شریف اور اُس کی شرح

 بےرحم؛قابلِ رحم نہیں ہوسکتا

* ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ جمادی الاولیٰ 1442

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کافرمان ہے : مَنْ لَا يَرْحَمُ لَايُرْحَمُ ترجمہ : جو رحم نہیں کرتا ، اُس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ([i])

اللہ کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے انسان کے ظاہر سے متعلق احکام کے ساتھ ساتھ باطن کی اچھی بُری کیفیات کو نہ صرف خوب واضح فرمایا بلکہ اِس کے نتائج بھی بیان فرمائے ہیں ، اِنہی باطنی کیفیات میں سے رحم اور بے رحمی بھی ہے جس کا اثر انسان کی داخلی اور خارجی زندگی میں نظر آتا ہے ، مذکورہ حدیثِ پاک کا موضوع “ رحم کی اہمیت اور بے رحمی کی مذمت ہے “ اس مبارک فرمان کا مفہوم بہت وسیع ہے ، اِس وسعت کا اندازہ لگانے کے لئے چند مرادی معنیٰ ملاحظہ کیجئے : (1)یعنی جس کا شمار رحم کرنے والوں میں نہیں ہوتا اللہ پاک اُس پر رحمت نہیں فرماتا (2)جو لوگوں پر احسان کرکے رحم نہیں کرتا ، رحمٰن کی جانب سے اُسے ثواب نہیں دیا جاتا (3)جسے دنیا میں رہتے ہوئے “ رحمتِ ایمان “ نصیب نہیں ہوئی اُس پر آخرت میں بھی رحم نہیں کیا جائے گا (4)جواحکامِ الٰہی پر عمل کرکے اور گناہوں سے بچ کر خود پر رحم نہیں کھاتا ، اُس پر اللہ پاک بھی رحم نہیں فرمائے گا (5)پہلی رحمت سے “ اعمال “ اور دوسری رحمت سے “ جزا و ثواب “ مراد ہے اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ نیک عمل کرنے والے کو ہی ثواب دیا جائے گا (6)پہلی رحمت سے صدقہ اور دوسری رحمت سے بَلا مراد ہے اس صورت میں مفہوم یہ ہوگا کہ صدقہ دینے والا ہی بَلا سے محفوظ رہے گا۔ ([ii])

حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالَم کے لئے “ رحمت “ بن کر تشریف لائے ، رحمتِ مصطفےٰ ہی کی بدولت ہم تک اسلام پہنچا کیوں کہ صحبتِ مصطفےٰ کی بدولت “ رحمتِ مصطفےٰ “ کا بھرپور فیضان صحابۂ کرام کو ملا ، اللہ کریم نے جس کا ذِکْر قراٰن پاک میں یوں فرمایا ہے : ) رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ( تَرجَمۂ کنزُ الایمان : اور آپس میں   نرم دل۔ ([iii]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک موقع پر فرمایا : تم اس وقت تک ہرگز مؤمن نہيں ہوسکتے جب تک آپس ميں رحم نہ کرنے لگو۔ صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  نے عرض کی : يارسولَ اللہ! ہم ميں سے ہر ايک رحم دل ہے۔ تو آپ نے ارشاد فرمایا : اپنے دوست پر رحم کرنا مراد نہيں بلکہ عام رَحم دِلی مراد ہے۔ ([iv])

صحابۂ کرام کے ذریعے رَحم دِلی شفقت و نرمی اور فضل و احسان کی صورت میں ڈھل کر دنیا کے کونے کونے میں پہنچی اور اسلام کے پھیلنے کا سبب بنی۔ یاد رکھئے! اللہ کو وہ بندہ بہت پسند ہے جو اُس کی مخلوق کو فائدہ پہنچائے اور مخلوق کو فائدہ پہنچانے پر رَحم دِلی کا وصف ہی اُبھارتا ہے ، رحم ہی کی بدولت انسان میں دوسرے کی بھوک کا احساس پیدا ہوتا ہے ، رحم ہی کے ذریعے انسان غریبوں کی مالی مدد ، تباہ حالوں کی داد رسی ، پریشان حالوں کی مشکل کشائی کر گزرتا ہے۔ “ رَحم دِلی “ کی بدولت بندہ ہر اُس چیز سے بچتا ہے جو دوسرے کی تکلیف کا باعث بنتی ہو ، رحم دل انسان کی گفتگو میں نرمی پیدا ہوجاتی ہے اور وہ اخلاق و کردار کو داغ دار کرنے والی بُرائی سے چھٹکارا پا لیتا ہے اور ایسا شخص رحمتِ الٰہی کا بھی حق دار قرار پاتا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رہے کہ رحم کا تعلق صرف انسان کے ساتھ نہیں بلکہ اللہ پاک کی تمام مخلوق سے ہے ، ان میں جانور بھی شامل ہیں۔ آج کل دیکھا جاتا ہے کہ گلی محلوں میں بچے اور کئی نوجوان بلّی ، کتےّ ، گدھے اور دیگر جانوروں کو بِلاوجہ مار رہے ہوتے ہیں بلکہ بعض علاقوں میں چڑیا ، کبوتر ، طوطے اور دیگر چھوٹی چھوٹی مخلوق کو باندھ کر خوب کھیل تماشا بنایا جاتا ہے ، والدین کو چاہئے کہ اپنی اولاد کو ایسے کام کرنے سے منع کریں۔ اس سلسلے میں مزید دو روایات ملاحظہ کیجئے چنانچہ (1)ہِشام بن زید بن انس کہتے ہیں کہ میں اپنے دادا حضرت انس بن مالک  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ حکم بن ایوب کے گھر آیا ، وہاں کچھ لوگ ایک مرغی کو باندھ کر اس پر تیر اندازی کررہے تھے ، حضرت انس نے فرمایا : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جانوروں کو باندھ کر مارنے سے منع فرمایا ہے۔ ([v])

(2)حضرت سَیِّدُنا عَبْدُاللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما قریش کے چند جوانوں کے پاس سے گزرے ، وہ لوگ ایک پرندے کو باندھ کر اس پر تیراندازی کی مشق کررہے تھے۔ انہوں نے پرندے والے سے یہ طے کر لیا تھا کہ جس کا تیرنشانہ پر نہیں لگے گا وہ اس کو کچھ دے گا ، جب ان لوگوں نے آپ  رضی اللہ عنہ  کو آتے دیکھا تو اِدھر اُدھر ہوگئے۔ آپ  رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جو شخص ایسا کرے اس پر اللہ کی لعنت ہو ، جو شخص کسی جاندار کو ہدف بنائے بلاشبہ اس پر رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لعنت کی ہے۔ ([vi])

اللہ کی مخلوق پر رحم ہماری بخشش کا بہانہ بھی بن سکتا ہے ،

اس سلسلے میں ایک حکایت ملاحظہ کیجئے چنانچہ کسی شخص نے خواب میں امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھ کر پوچھا : اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا مُعامَلہ فرمایا؟ جواب دیا : اللہ پاک نے مجھے بخش دیا ، پوچھا : مغفِرت کا کیا سبب بنا؟ فرمایا : ایک مکّھی روشنائی (Ink) پینے کے لئے میرے قلم پر بیٹھ گئی ، میں لکھنے سے رُک گیا ، یہاں تک کہ وہ فارِغ ہوکراُڑگئی۔ ([vii])

زمین پر بسنے والے انسان نے بے رحمی کے نئے نئے طریقے ایجاد کر رکھے ہیں اور اُن طریقوں پر “ تفریح ، کھیل اور طرح طرح کے کئی لیبل “ چسپاں کر رکھے ہیں اور اللہ پاک کی مخلوق کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کردیا ہے بلکہ مخلوقِ خدا کی بہت بڑی تعداد اس بے رحمی کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کا “ درسِ رَحم دِلی “ گاؤں گاؤں ، شہر شہر ، ملک ملک عملی صورت میں پہنچایا جائے۔ عاشقانِ رسول کی عظیم تحریک دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوکر آپ بھی “ درسِ رَحم دِلی “ لینے ، عملی طور پر اپنانے اور دنیا بھر میں اسے پھیلانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ*   ذمہ دار شعبہ فیضانِ اولیاو علما ، المدینۃالعلمیہ کراچی



([i])بخاری ، 4 / 100 ، حدیث : 5997

([ii])فیض القدیر ، 6 / 310 ، تحت الحدیث : 9090 ملخصاً

([iii])پ26 ، الفتح : 29

([iv])مجمع الزوائد ، 8 / 340 ، حدیث : 13671

([v])مسلم ، ص832 ، حدیث : 5057

([vi])مسلم ، ص833 ، حدیث : 5062

([vii])لطائفُ المنن ، ص305


Share

Articles

Comments


Security Code