احکام تجارت
*مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025
(1)کم کریٹ کا سونا زیادہ کریٹ بتاکر بیچنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ سُنار مارکیٹ میں کچھ دوکاندار حضرات کارخانےدار سے تیار زیورات لیتے ہیں اور بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ زیور20.5 کیرٹ کا ہوتا ہے اور کارخانےدار کہتا ہے کہ یہ 21 کیرٹ کا ہے جبکہ دوکاندار کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ زیور20.5 کیرٹ کا ہے ایسی صورت میں دوکاندار کا کسٹمر کو وہ زیور 21 کیرٹ کا کہہ کر بیچنا کیسا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں 20.5 کیرٹ کا زیور کسی کسٹمر کو 21 کیرٹ کا کہہ کر بیچنا، جھوٹ اور دھوکہ ہے۔ ایسا کرنا ہرگز جائز نہیں، لہٰذا دوکاندار پر واجب ہے کہ کسٹمر کو بتائے کہ یہ زیور اتنے کیرٹ کا ہے، ایسا نہ بتانے سے گاہک کا حق متاثر ہوتا ہے کیونکہ جو ریٹ 21 کیرٹ کے ہوں گے اس سے کم کیرٹ کے ریٹ کم ہوں گے۔
دھوکا دینے کی ممانعت سے متعلق صحیح مسلم شریف میں روایت ہے:”من غشنا فلیس منا“ یعنی: جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(مسلم،1/64،حدیث:283)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)آن لائن پلیٹ فارمز سے خریداری کرنا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ آن لائن پلیٹ فارم مثلاً Daraz یا Ali Express وغیرہ سے کپڑے، موبائل کا سامان اور دیگر ضروری روز مرہ کی چیزیں خریدتے وقت ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ خریدی جانے والی چیز سیلر کی ملکیت میں بھی ہے یا نہیں ؟ تو جب ہمیں پتا نہیں ہے کہ چیز مملوک و مقبوض بھی ہے یا نہیں تو کیا ایسی صورت میں ہمارا انہیں خریدنا جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آن لائن پلیٹ فارم سے خریداری جائز ہے اور بیع قبل القبض یا قبل الملک ہونے کا محض شبہ ناجائز ہونے کی وجہ نہیں بن سکتا۔ ہاں جس پلیٹ فارم کے متعلق یقینی طور پر معلوم ہو جائے کہ وہ بیع قبل القبض کے طور بیچتا ہے ایسے پلیٹ فارم سے خریداری کرنا ناجائز ہوگا۔
علامہ تفتازانی رحمۃُ اللہِ علیہ شرح التلویح میں لکھتے ہیں: ”الاصل في العقود هو الانعقاد والجواز اذلم توضع في الشرع الا لذلك“ یعنی عقود میں اصل،انعقاد و جواز ہے کیونکہ شرع نے ان کی وضع ہی انعقاد و جواز کے لئے فرمائی ہے۔ جب تک یقینی طور پر فساد معلوم نہ ہو محض شک سے عقود کے فساد کا حکم نہ ہوگا۔ آپ ہی فرماتے ہیں:”انه لا يثبت بالشك“ یعنی فساد شک سے ثابت نہ ہوگا۔(شرح التلويح علی التوضیح،ص89)
برھان الملۃ والدین ابو المعالی،الذخیرۃ البرھانیۃ الشہیر بذخیرۃ الفتاوی مِیں لکھتے ہیں:”لا یثبت الفساد بالشک والاحتمال“ یعنی شک و احتمال سے فساد ثابت نہیں ہوتا۔ (الذخیرۃ البرھانیۃ،13/80)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)سود سے بچنے کے لئے سونا خرید کر اپنا نفع رکھ کر آگے بیچنا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے میں کہ ایک شخص مجھ سے قرض لینا چاہتا ہے اور میں اپنا پرافٹ بھی رکھنا چاہتا ہوں لہٰذاہم نے یہ طریقہ اختیار کیا ہےکہ قرضدار کو 2لاکھ روپے قرض چاہئے تو میں بازار سے اسےدولاکھ کا سونا خرید کر ادھارمیں ایک معین مدت کے لئے 2لاکھ 30ہزار کا بیچ دوں گا، کیا ہمارا یہ طریقہ اختیار کرنا درست ہے ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق اگرآپ دو لاکھ کا سونا خرید کر اس پر قبضہ کرنے کے بعد قرضدارکو ایک معین مدت کے لئے 2لاکھ 30ہزار میں بیچیں گے تو اس طرح عقد کرنا جائز و درست ہے،اور اسے عقد ِ مرابحہ کہتے ہیں کہ اس میں بیچنے والا خریدار کو اپنا نفع ظاہر کر کے بیچتا ہے اور عقدِ مرابحہ ادھار بھی ہوسکتا ہے۔
لیکن اس میں یہ خیال رکھا جائے کہ سونا خرید کر قبضہ میں لینا ضروری ہے پھر آگے بیچا جائے ورنہ عقد ناجائز ہوجائے گا۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(4)بیچی ہوئی چیز ادائیگی کے بعد کم قیمت میں واپس خریدنا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ میں نے اپنے دوست کو ایک پرانا موبائل 35000 روپے میں فروخت کیا۔میں نے پیسوں پر اور اس نے موبائل پر قبضہ بھی کرلیا۔لیکن موبائل لینے کے کچھ دیر بعد میرا دوست واپس آگیااور کہنے لگاکہ میرے گھروالے کہہ رہے ہیں کہ فی الحال یہ موبائل واپس کردو، ہم کچھ مہینوں بعد تمہیں نیا موبائل دلادیں گے۔اب میں یہ چاہتا ہوں کہ جو موبائل میں نے اسے35000 میں فروخت کیا تھا،اب میں وہی موبائل اس سے 32000 میں خرید لوں۔میری رہنمائی فرمائیں کہ جو موبائل میں نے اسے 35000 میں فروخت کیا تھا اور تقابضِ بدلین بھی مکمل ہوچکا تھا،کیا اب وہی موبائل میں اپنے دوست سے 32000 میں خرید سکتا ہوں ؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں جب پہلا سودا ہو چکا اور تقابضِ بدلین بھی مکمل ہولیا تو جو موبائل آپ نے 35000 میں بیچا تھا وہی موبائل دوسرے سودے میں باہمی رضامندی سے 32000 میں خریدنا، جائز ہے۔ البتہ اگر مشتری نے 35000 ادا نہ کئے ہوں تو اب 32000 میں خریدنا جائز نہیں ہوگا۔
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: ”جس چیز کو بیع کر دیا ہے اور ابھی ثمن وصول نہیں ہوا ہے، اس کو مشتری سے کم دام میں خریدنا، جائز نہیں اگرچہ اس وقت اس کا نرخ کم ہو گیا ہو۔ یوہیں اگر مشتری مر گیا، اس کے وارث سے خریدی جب بھی جائز نہیں۔۔۔ مشتری سے اُسی دام میں یازائد میں خریدی یا ثمن پرقبضہ کرنے کے بعد خریدی یہ سب صورتیں جائز ہیں۔ “ (بہارشریعت،2/708)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments