
احکامِ تجارت
*مفتی ابومحمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025
(1)ورکنگ پارٹنر کا اضافی رقم خود رکھ لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم دو افراد نے مل کر پارٹنر شپ کی ہے، پیسے دونوں کے آدھے آدھے ہیں جبکہ کام صرف میں کرتا ہوں، نفع دونوں آدھا آدھا رکھتے ہیں، پوچھنا یہ ہےکہ ہم نے بیچنے کی تمام چیزوں کے ریٹ اپنے طور پر فکس کیے ہوئے ہیں کہ فلاں آئٹم اتنے کا بیچنا ہے اور فلاں آئٹم اتنے کا، کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں کسی بھی آئٹم کو فکس کیےہوئے ریٹ سے زیادہ میں بیچ دوں اور اس کا اضافی نفع خود رکھ لوں، اپنے پارٹنر کو اس میں شامل نہ کروں؟ کیونکہ خریداری سے لے کر نفع کی تقسیم تک ساری محنت میری ہوتی ہے۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ کا ریٹ فکس کیے ہوئے آئٹم پر ملنے والا اضافی نفع خود رکھ لینا جائز نہیں بلکہ جتنا اضافی نفع حاصل ہو گا وہ بھی طے شدہ نفع کی فیصد کے مطابق آدھا آدھا آپ دونوں پارٹنرز کے درمیان تقسیم ہو گا۔
مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ شرکتِ عقد میں ہر شریک دوسرے کا وکیل و امین ہوتا ہے، مالِ شرکت میں سے جو بھی شریک کوئی آئٹم فروخت کرے وہ فقط اپنی جانب سے فروخت نہیں کررہا بلکہ اپنے دوسرے پارٹنر کی طرف سے بھی فروخت کر رہا ہے، نفع ہونے کی صورت میں دونوں ہی پارٹنر ز طے شدہ حصے کے مطابق اس میں شریک ہوں گے، لہٰذا آپ جو بھی آئٹم فروخت کریں گے،آپ دونوں کی طرف سے فروخت ہوگا، اس میں ہونے والے تمام نفع میں دونوں ہی پارٹنر طے شدہ حصے کے مطابق شریک ہوں گے، پارٹنر کو بتائے بغیر نفع میں سے کچھ مقدار بلا شرکت اپنے پاس رکھ لینا جائز نہیں اگرچہ آپ دونوں نے مل کر یہ طے کیاہے کہ فلاں آئٹم اتنے کا بیچنا ہے اور پھر اس سے زائد پر آپ نے بیچا ہو کیونکہ اس طے کرنے سے زائد نفع سے شریک کا حصہ ختم نہیں ہوا، یہ طے کرنا تو محض نفع کے اندازے کے طور پر ہے، اصل نفع سامان کو بیچنےکے بعد ظاہر ہوتا ہے۔
پارٹنرشپ میں ورکنگ پارٹنر زیادہ نفع لینا چاہتا ہے تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ باہمی رضامندی (Mutual Understanding) سے اس کے لئے نفع (Profit) کا تناسب (Ratio) زیادہ مقرر کرلیا جائے،یوں ورکنگ پارٹنر کا زیادہ نفع لینا جائز ہوجائے گا۔
بہارشریعت میں ہے:”اگر دونوں نے اس طرح شرکت کی کہ مال دونوں کا ہوگا مگر کام فقط ایک ہی کرے گا اور نفع دونوں لیں گے اور نفع کی تقسیم مال کے حساب سے ہوگی یا برابر لیں گے یا کام کرنے والے کو زیادہ ملے گاتو جائز ہے۔“ (بہارشریعت،2/499)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(2)اپناثابت شدہ حق لینے کے لئے رشوت دینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہمارے والد کا انتقال ہو چکا ہے،وہ ایک کمپنی میں کام کرتے تھے جہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعداب تک ان کی پنشن آتی ہے، کچھ وقت سے ہم نے اپنے والد کی پنشن نہیں اٹھائی، اب کمپنی سے جمع شدہ پنشن مانگ رہے ہیں تو وہ اس میں سے بطورِ کمیشن کچھ پیسے کاٹ رہے ہیں اور بغیر پیسے کاٹے پنشن نہیں دے رہے، ہمیں ان پیسوں کی ضرورت بھی ہے، تو کمپنی والوں کا پیسوں کا مطالبہ کرنا اور ہماراوہ پیسے انہیں دیناکیساہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: کسی شخص کا ثابت شدہ حق جو حتی الامکان کوشش کے باوجود بغیر پیسے دیئے نہ مل رہا ہو اسے حاصل کرنے کے لیے جو پیسے دیئے جائیں وہ دینے والے کے لیے جائز ہے البتہ لینے والے کے حق میں وہ پیسے رشوت ہیں لہٰذا اس کے لیے وہ پیسے لینا ناجائز و حرام ہے۔ پوچھی گئی صورت میں اس کمپنی میں آپ کے والد صاحب کی جمع شدہ پنشن ان کے گھر والوں کا ثابت شدہ حق ہے، اگر انہیں حتی الامکان کوشش کے باوجود وہ پنشن بغیر پیسے دیئے نہیں مل رہی تو اسے حاصل کرنے کے لیے ان کا پیسے دینا جائز ہے، البتہ لینے والے کے لیے وہ پیسے لینا، ناجائز و حرام ہے۔
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرّحمہ لکھتے ہیں: ’’کسی کے ذمہ اپنا حق ہے جو بغیر رشوت دیے وصول نہیں ہوگا اور یہ اس لیے رشوت دیتا ہے کہ میرا حق وصول ہوجائے یہ دینا جائز ہے یعنی دینے والا گنہگار نہیں مگر لینے والا ضرور گنہگار ہے اس کو لینا جائز نہیں۔“(بہارشریعت،3/657)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(3)ایسا گھر بیچنا جو جنات کی وجہ سے بھاری مشہور ہو
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ایک شخص اپنا گھر بیچنا چاہتا ہے لیکن یہ گھر بھاری ہے اس میں شریر جنات ہیں جو رہنے والوں کو تنگ کرتے ہیں، پڑوسی اور دیگر اہلِ محلہ کو بھی یہ معلوم ہے۔ اس شخص نے اپنا یہ گھر کرایہ پر دیا ہوا ہے لیکن اس میں زیادہ عرصہ کوئی ٹھہرتا نہیں ہے۔اب یہ شخص اپنا یہ گھر بیچنا چاہتا ہے کیا اس پر لازم ہےکہ جنات وغیرہ کےبارے میں خریدار کو بتائے اگر خاموشی اختیار کر لے تو کیا گنہگار ہوگا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: جس گھر کے بارے میں لوگوں کے درمیان مشہور ہوجائے کہ اس میں جنات ہیں یہ گھر بھاری ہے، ایسا گھر اگر مالک بیچنا چاہے تواسے بیچتے وقت خریدار کو اس بارے میں بتانا واجب ہے، یہ بتائے بغیر بیچے گا تو گناہگار ہوگا کیونکہ فقہائے کرام نے اسے عیب میں شمار کیا ہے اور عیب والی چیز کو عیب بتائے بغیر بیچنا ناجائز و گناہ ہے اگر عیب بتائے بغیر گھربیچ دیا تو خریدار کو اسے واپس کرنےکا شرعاً اختیار ہے اور گھرکے مالک پر فروخت کردہ گھرواپس لے کر پوری قیمت خریدار کو لوٹانا لازم ہے۔
جس گھر کو لوگ منحوس کہتے ہیں اس کے بارے میں در مختار خیارِ عیب کے باب میں ہے:”لو ظهر ان الدار مشؤمة ينبغي ان يتمكن من الرد، لان الناس لا يرغبون فيها“یعنی:اگر خریداری کے بعد ظاہر ہو کہ یہ گھر منحوس ہے تو یہ واپس کر سکتا ہے کیونکہ لوگ اس گھر کو خریدنے میں رغبت نہیں رکھتے۔(در مختار معہ رد المحتار،7/181)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرَّحمہ لکھتے ہیں: ”مکان یا زمین خریدی لوگ اُسے منحوس کہتے ہیں واپس کرسکتا ہے کیونکہ اگر چہ اس قسم کے خیالات کا اعتبار نہیں مگر بیچناچاہے گا تو اس کے لینے والے نہیں ملیں گے اور یہ ایک عیب ہے۔“ (بہار شریعت، 2/681)
اور لکھتے ہیں:”مبیع میں عیب ہوتواس کا ظاہرکردینا بائع پر واجب ہے چھپانا حرام و گناہ کبیرہ ہے۔“(بہار شریعت،2/673)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments