احکامِ تجارت
*مفتی ابو محمد علی اصغر عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024
پہننے کے لئے کپڑے کرائے پر لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ بعض دکاندار شادی میں پہننے کے لئے تیار شدہ (Readymade) لیڈیز سوٹ کرائے پر دینے کا کام کرتے ہیں، کیا ہمارا کرائے پر تیار شدہ (Readymade)کپڑے لینا شرعاً جائز ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: تیار شدہ (Readymade) لیڈیز سوٹ شادی میں پہننے کے لئے طے شدہ اُجرت کے عوض کرائے پر لینا جائز ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”اذا استاجرت المراة درعا لتلبسه اياما معلومة ببدل معلوم فهو جائز“ یعنی :اگر کسی عورت نے زنانہ قمیض معلوم ایام تک پہننے کی غرض سے معلوم معاوضے کے بدلے کرائے پر لی تو یہ جائز ہے۔ (فتاویٰ عالمگیری، 4/465)
صدرالشریعہ بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں:”کپڑے کو پہننے کے لیے کرایہ پرلے سکتا ہے۔“ (بہار شریعت، 3/128)
تنبیہ: ان کپڑوں کو اپنے ذاتی کپڑے بتا کر جھوٹ بولنا، جائز نہیں۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مہینہ پورا ہونے سے پہلے ملازم کو اجرت دینا
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری کمپنی میں کئی افراد کام کرتے ہیں جنہیں میں ماہانہ تنخواہ دیتا ہوں اور انہیں کام پر رکھتے وقت بھی طے یہی ہوتا ہے کہ پہلے پورا مہینہ آپ کام کریں گے، اس کے بعد تنخواہ ملے گی لیکن بعض ملازمین اپنی ضرورت کے تحت مہینہ پورا ہونے سے پہلے ہی کچھ تنخواہ کا تقاضا کرنے لگ جاتے ہیں، بعض اوقات میں دے دیتا ہوں اور بعض اوقات نہیں دے پاتا۔ کیا نہ دینے کی صورت میں،مَیں گنہگار ہوں گا اور حق العبد میں گرفتار ہوں گا؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں ملازم رکھتے وقت ہی جب ملازم سے تنخواہ کے متعلق یہ طے ہوجاتاہے کہ پہلے پورامہینہ آپ کام کریں گے اس کے بعد تنخواہ ملے گی اور ہر مہینہ اسی طرح ہوگا تو مہینہ پورا ہونے پر ہی ملازم کو تنخواہ دینا لازم ہے، اس سے پہلے تنخواہ یا اس کا کچھ حصہ دینا لازم نہیں ہے لہٰذا نہ دینےپر آپ گنہگار نہیں ہوں گے۔ البتہ ملازمین کا ایڈوانس سیلری طلب کرنا قرض کی ایک صورت ہے ۔ضرورت مند کو قرض دینا بھی ایک عمدہ نیکی ہے۔ اگر گنجائش ہو تو ایسا کرنا چاہئے البتہ ایسا کرنا عام حالات میں واجب نہیں ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
قرض واپس کرنے کے گواہ نہ ہوں تو اختلاف کیسے ختم کریں؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ زید نے مجھےرقم قرض دی پھر کچھ عرصے بعد میں نے وہ رقم زید کو واپس کردی ،لیکن زید کا کہنا ہے کہ مجھے میری رقم واپس نہیں کی،گواہ ہم دونوں کے پاس نہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں شریعتِ مطہرہ ہماری کیا راہنمائی فرماتی ہے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ رقم کی ادائیگی پر گواہ پیش کریں، اگرآپ نے گواہ پیش کر دیئے تو آپ قرض کی ادائیگی سے بری ہوں گے۔ گواہ نہ ہونے کی صورت میں زیدسے یہ قسم لی جائے گی کہ اس نے رقم وصول نہیں کی ،اگرزید قسم کھالیتا ہے تو آ پ پر لازم ہوگا کہ زید کو قرض کی ادا ئیگی کریں ۔ اگروہ قسم کھانے سے انکار کرتا ہے تو اب آپ پر ادائیگی کرنا شرعاً لازم نہ ہوگا۔
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ”دائن نے دَین کا دعویٰ کیا، مدیون کہتا ہے کہ میں نے اتنے روپے تمہارے پاس بھیج دیے تھے یا فلاں شخص نے بغیر میرے کہنے کے دَین ادا کردیا، مدیون کی یہ بات مسموع ہوگی اور دائن پرحلف دیا جائیگا ۔“(بہار شریعت،2/1024)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
پکنک کی بچی ہوئی رقم خود رکھ لینا کیسا؟
سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شر ع متین اس مسئلے میں کہ میں نے اپنے دوستوں سے برابر برابر پیسے جمع کیے اور خود بھی پیسے ملائے اور ان پیسوں سے سب کے لیے فارم ہاؤس بک کروایا، سواری اور کھانے وغیرہ کا ایک جیسا انتظام کیا لیکن آخر میں کچھ پیسے بچ گئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ بچے ہوئے پیسے میں خود رکھ سکتا ہوں یا اپنے دوستوں کو واپس کرنے ہوں گے؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
جواب: پوچھی گئی صورت میں ان بچے ہوئے پیسوں میں سے جو باقی دوستوں کے پیسے ہیں وہ آپ کے لیے خود رکھنا جائز نہیں بلکہ آپ کے پاس وہ پیسے امانت ہیں،چونکہ تمام دوستوں نے برابر برابر پیسے دیئے تھے تو آپ پر لازم ہے کہ ان کے بچے ہوئے پیسے انہیں برابر برابر لوٹا دیں کیونکہ آپ اپنے دوستوں کی طرف سے فارم ہاؤس بک کروانے ،کھانے اور سواری وغیرہ کا انتظام کرنے کے وکیل تھے اور وکیل ان چیزوں کے جتنے پیسے ادا کرے گا اتنے ہی مؤکل (یعنی وکیل بنانے والے ) کے حق میں نافذ ہوں گے ،اور وکیل چونکہ امین ہوتا ہے تو مؤکل کے دیئے ہوئے پیسوں میں سے جو بچ جائیں وہ بھی وکیل کے پاس امانت ہوتے ہیں جسے وہ خود نہیں رکھ سکتا بلکہ مؤکل کو واپس لوٹانا لازم ہوتا ہے۔
صدرالشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں: ”وکالت کے یہ معنی ہیں کہ جو تصرف خود کرتا ،اُس میں دوسرے کو اپنے قائم مقام کر دینا ۔“(بہارشریعت، 3/974)
اور لکھتے ہیں:’’وکیل یا مضارب کو جو مال دیا جاتا ہے وہ امانت ہے۔‘‘(بہارشریعت، 3 /711)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* محقق اہل سنت، دارالافتاء اہل سنت نورالعرفان، کھارادر کراچی
Comments