کامل مؤمن کے 4اوصاف

حدیث شریف اور اس کی شرح

کامل مؤمن کے 4اوصاف

* مولانا ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ اپریل 2021

حُضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا :

مَنْ اَحَبَّ لِلَّهِ وَاَبْغَضَ لِلَّهِ وَاَعْطٰى لِلَّهِ وَمَنَعَ لِلَّهِ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ الْاِيمَانَ ۔

ترجمہ : جو اللہ پاک کے لئے محبت کرے ، اور اللہ پاک کے لئے دشمنی رکھے ، اور اللہ پاک کے لئے عطاکرے اور اللہ پاک کے لئے روکے تو اُس شخص نے اپنا ایمان مکمل کیا۔[1]

اِس فرمانِ عالی شان کی وضاحت یہ ہے کہ محبت و نفرت دل کے کام ہیں اور دینا اور نہ دینا انسانی اعضاء کے کام ، لہٰذا جب دل اور اعضاء کے کام دونوں اللہ پاک کے لئے ہوں تو بندے کا ایمان کامل ہوجاتا ہے اور علما فرماتے ہیں کہ دل کی درستی سے عمل بھی دُرست ہوجاتا ہے کیونکہ جب دل اللہ پاک کی رضا کو پسند کرنے لگےتو اعضاء اللہ کی نافرمانی والے کاموں میں نہیں لگتے بلکہ اُس کی رضا والے کام کرنا پسند کرتے ہیں۔[2]

اِس حدیثِ پاک کے مختصر الفاظ میں معیارِ زندگی مقرر کیا گیا ہے اور اس معیار کو کامل ایمان کا سبب بھی قرار دیاگیا ہے ، ہونا تو یہ چاہئے کہ ہمارے روز و شب ، اقوال و افعال ، لین دین ، افکار و کردار اور ہمارے تمام ترکاموں کا دارو مدار اللہ پاک کی رضا پر ہو۔ مذکورہ حدیث میں کامل ایمان والوں کی چار صفات بیان کی گئی ہیں ، اِن کی مختصر وضاحت ملاحظہ کیجئے :

(1) “ محبت “ اللہ کے لئے ہو : دل کسی خوبی یا کمال کی وجہ سے کسی کی جانب کھنچا چلا جائے اُسے محبت کہتے ہیں۔[3] جب بندہ اپنے دل و دماغ میں یہ بات بٹھا لیتا ہے کہ “ اللہ پاک ہی کا حقیقی کمال ہے۔ “ بندہ ہر عمل کرنے سے پہلے اپنی نیت و ارادے کو اخلاص کی کسوٹی پر پرکھ لیتا ہے ، عمل کرنے کے دوران اللہ پاک کے بیان کردہ احکام کی خلاف ورزی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے ، اگر کہیں کوئی کمی رہ جائے یا کوئی غلطی ہوجائے تو بارگاہِ الٰہی سے معافی طلب کرنے میں تاخیر نہیں کرتا ایسا بندہ اپنے قول و فعل ، لین دین ، محبت و نفرت بلکہ زندگی کے ہر ہر عمل میں اللہ پاک کی رضا کو پیشِ نظر رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔

ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہماری محبت اللہ پاک کے لئے ہے یا دنیا کے لئے؟ اس سلسلے میں امام غزالی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : اگر کوئی شخص باورچی سے اس لئے محبّت کرے کہ اس سے اچھا کھانا پکوا کر غریبوں کو بانٹے تویہ کے لئے محبّت ہے۔ اور اگر عالمِ دین سے اس لئے محبّت کرے کہ اس سے علمِ دین سیکھ کر دنیا کمائے تو یہ دنیا کے لئے محبّت ہے۔[4]

(2) “ بُغض “ اللہ کے لئے ہو : ناپسندیدگی اور بغض کا ایک معیار وہ ہے جو ہر کسی نے اپنے حساب سے مقرر کر رکھا ہے اس میں بہت ساری ایسی غلطیاں ہیں جو دنیا و آخرت دونوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہیں لیکن ایک وہ معیارِ ناپسندیدگی ہے جسے اللہ پاک نے مقرر فرمایا ہے اِسے اختیار کرنے کے بعد بندہ کسی بھی چیز ، فعل یا فرد کو اسی لئے ناپسند کرتا ہے کہ وہ اللہ کو ناپسند ہے ، یوں بندہ انانیت جیسی خامیوں کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے۔

(3 ، 4) “ عطا کرنا اور نہ کرنا “ اللہ پاک کے لئے ہو : کسی بھی “ عطا “ سے ہماری لالچ یا محض ذاتی فائدہ وابستہ ہو تو اُس کے نتائج بھی خراب نکلتے ہیں جب کہ یہی کام اگر اللہ پاک کی رضا کے لئے ہو تو ہمدردی اور خیرخواہی جیسے خوب صورت جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ کسی کو حقارت یا ذاتی رنجش کی وجہ سے نہ دینا بھی بہت بُری بات ہے ، اس سے ہمیں بچنا چاہئے۔

مذکورہ تفصیل سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ حدیث میں بیان کردہ یہ چاروں صفات اپناکر ہم اپنا ایمان بھی کامل کرسکتے ہیں اور ظاہر و باطن بھی سنوار سکتے ہیں نیز یہ مبارک فرمان ہماری نیت و ارادے کی درستی کا بھی بہت بڑا سبب ہے اور اقوال و اعمال سنوارنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ آئیے! ہم محبت و نفرت اور نوازنے اور نوازشات روکنے کے نبوی اصول اپناتے ہیں اور کامل ایمان کی برکتوں سے مالا مال ہوکر انفرادی و اجتماعی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضان اولیا و علما المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] ابوداؤد، 4/290، حدیث:4681

[2] غذاء الالباب، 1/47 ملخصا

[3] فیض القدیر، 1/217

[4] اشعۃ اللمعات،1/67


Share