مسجد کو ٹھکانا بنانا

شرح حدیث رسول

مسجد کو ٹھکانا بنانا

*مولانا ابو رجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:

 مَا تَوَطَّنَ رَجُلٌ مُسْلِمٌ الْمَسَاجِدَ لِلصَّلَاةِ وَالذِّكْرِ اِلَّا تَبَشْبَشَ اللَّهُ لَهُ كَمَا يَتَبَشْبَشُ اَهْلُ الْغَائِبِ بِغَائِبِهِمْ اِذَا قَدِمَ عَلَیْھِمْ ترجمہ: جب کوئی مسلمان نماز اور ذکرکے لئے مسجد کو ٹھکانا بنالیتاہے تو اللہ کریم اس سے ایسے خوش ہوتا ہے جیسے کسی غائب کے گھر والےاس کے آنےپر خوش ہوتے ہیں۔([i])

شرحِ حدیث:

(1)مسجد کو ٹھکانا بنانا: اس سے مراد مسجد میں حاضر ہونے کو اپنے اوپر لازم کرلینا ہے، یہ نہیں کہ مسجد میں اپنے لئے ایک جگہ خاص کرلی جائے کیونکہ ایک اور حدیث پاک میں اس سے منع کیا گیا ہے۔([ii])

مِرقاۃُ المفاتیح میں ہے: مسجد کو ٹھکانا بنانے کے فضائل نماز اور ذِکرُ اللہ کے لئے ہیں نہ کہ دنیاوی اغراض و مقاصد اور نفسانی لذتوں کے لئے۔([iii])

شرعی ضرورت کی وجہ سے جگہ خاص کرنا کیسا؟

حضرت الحاج مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: مسجد میں اپنے لئے کوئی جگہ خاص کرلینا کہ اور جگہ نماز میں دل ہی نہ لگے مکروہ ہے، ہاں شرعی ضرورت کے لئے جگہ مقرر کرلینا جائز ہے، جیسے امام کے لئے محراب مقرر ہے اور بعض مسجدوں میں مُکَبِّر (تکبیر کہنے والے ) کے لئے امام کے پیچھے کی جگہ، انہیں بھی چاہئے کہ سنتیں اور نفل کچھ ہٹ کر پڑھیں، مسجد میں جس جگہ جو پہلے پہنچے وہاں کا وہی مستحق ہے۔ بعض سلاطین اسلامیہ خاص امام کے پیچھے اپنے لئے جگہ رکھتے تھے وہ معذوری کی بناء پر تھا کیونکہ اور جگہ انہیں جان کا خطرہ تھا۔ یہاں باقاعدہ ان کی حفاظت کا انتظام ہوتا تھا لہٰذا وہ اس حکم سے عذرًا مستثنیٰ (یعنی مجبوری کی وجہ سے وہ حکمران اس حکمِ شرعی میں داخل نہیں) ہیں۔([iv])

(2)ربِّ کائنات کا خوش ہونا:ربِّ کریم کے خوش ہونے سے مراد یہ ہےکہ اللہ کریم اس بندے پر نظرِ رحمت فرماتا ہے اور اسے بھلائی اور انعام و اکرام سے نوازتا ہے۔([v])

(3)غائب سے مراد:غائب ”غیب“ سے بنا ہے اور غیب سے مراد وہ ہے جو آنکھوں سے اوجھل ہو، چاہے انسان کے دل میں موجود ہو یا نہ ہو۔([vi]) یہاں غائب سے مراد گمشدہ شخص بھی ہوسکتا ہے اور دیر بعد ملنے والا بھی۔

شرح کاخُلاصہ: اللہ ربُّ العٰلمین مسجد میں کثرت سے حاضر رہنے والے مسلمان سے ایساخوش ہوتا ہے جیسے کوئی انسان اپنے پیارے کو ایک عرصے بعد مل کر خوش ہوتا ہے۔ ربِّ کریم اپنے بندے سے راضی ہوکر انعام واکرام عطا فرماتا ہے۔

مسجد کی مرکزی اہمیت

اسلامی معاشرے میں مسجد کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ مسجد بنانے، اس کی دیکھ بھال اور خدمت کرنے، مسجد سے محبت کرنے، اس کی طرف چلنے، اس میں نماز ادا کرنے، اعتکاف کرنے اور دیگر عبادتوں کے بہت سے فضائل و فوائد احادیثِ مبارکہ میں بیان ہوئے ہیں۔ ایک حدیث پاک میں ہے: بےشک کچھ لوگ مساجد کے ستون ہوتے ہیں، فرشتے ان کے ہم نشین ہوتے ہیں اگر وہ غائب ہو جائیں تو فرشتے انہیں تلاش کرتے ہیں اور اگر بیمار ہوں تو ان کی عیادت کرتے ہیں اور اگر انہیں کوئی حاجت درپیش ہو توان کی مدد کرتے ہیں۔([vii])

مچھلی پانی میں

صوفیاء کرام فرماتے ہیں کہ مؤمن مسجد میں ایسا ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی میں اور منافق ایسا جیسے چڑیا پنجرے میں۔ اسی لئے نماز کے بعد بلاوجہ فورًا مسجد سے بھاگ جانا اچھا نہیں، خدا توفیق دے تو مسجد میں پہلے آؤ اور بعد میں جاؤ، اور جب باہَر رہو تو کان اذان کی طرف لگے رہیں کہ کب اذان ہو اور مسجد کو جائیں۔([viii])

ہمارے بزرگانِ دین  رحمۃُ اللہِ علیہم کو مسجد سے کتنی محبت ہوتی تھی اس کی چند جھلکیاں دیکھئے؛

40سال مسجد میں اذان سنی

حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیب رحمۃُ اللہ علیہ کے آزاد کردہ غلام حضرتِ سیِّدُنا بُرْد رحمۃُ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں:40سال سے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اذان کے وقت حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیب رحمۃُ اللہ علیہ مسجد میں نہ ہوں۔([ix])

کیا مسجد سے بہتر بھی کوئی جگہ ہے؟

حضرت سیدنا محمد بن منكدر رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا زیاد بن ابوزیاد رحمۃُ اللہ علیہ کو دیکھا کہ وہ مسجد میں بیٹھے اس طرح اپنے نفس کا محاسبہ فرما رہے تھے کہ بیٹھ جا! تو کہاں جانا چاہتا ہے، کیوں جانا چاہتا ہے؟ کیا مسجد سے بھی بہتر کوئی جگہ ہے جہاں تو جانا چاہتا ہے؟ دیکھ تو سہی! یہاں رحمتوں کی کیسی برسات ہے؟ جبکہ تُو چاہتا ہے کہ باہر جا کر کبھی کسی کے گھر کو دیکھے، کبھی کسی کے گھر کو! ([x])

عصر تا مغرب مسجد میں ٹھہرتے

حضرت سیدنا حسان بن عطیہ رحمۃُ اللہِ علیہ نمازِ عصر کے بعد مسجد میں ذِکرُ اللہ میں مشغول رہتے یہاں تک کہ سورج غروب ہوجاتا۔([xi])

مسجد میں حاضری کے ضمنی فوائد

مسجد میں حاضری کے بہت سارے ضمنی فوائد بھی ہیں، مثلاً: ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی رہتی ہے، سماجی رشتے مضبوط ہوتے ہیں، نئے تعلقات بنتے ہیں، صفائی پسندی کی تربیت ملتی ہے، گالم گلوچ، جھوٹ، غیبت جیسے بہت سے گناہوں سے بچنے کی مشق ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی حسبِ موقع، حسبِ حال ضمنی فوائد حاصل ہوتے ہیں جس سے ہماری معاشرتی زندگی بہتر ہوتی ہے۔

دورِ نبوی میں مسجد کی رونقیں

اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاکیزہ دور میں مسجد کی رونقیں عروج پر تھیں کیونکہ کوئی مسلمان مسجد میں حاضری سے پیچھے نہیں رہتا تھا۔ باجماعت نمازیں ادا ہوتیں، تلاوتِ قراٰن کی جاتی، علمِ دین سکھایا جاتا، مجاہدین و مبلغینِ اسلام کے لشکر ترتیب پاتے، بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے والے مختلف وفود کو ٹھہرایا جاتا جہاں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے ملاقات فرمایا کرتے، صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم شریعت سیکھنے کے لئے صحبتِ نبوی پایا کرتےتھے۔

رونق کیسے کم ہوئی؟

صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کے دور تک 100فیصد مسلمان نماز پڑھتے تھے۔ ان کا دور بہت سنہری دور تھا۔ پھر تابعین کا دور آیا اس میں بھی کثیر تعداد نماز پڑھتی تھی لیکن یہ زمانہ صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے جیسا نہیں تھا، اس کے بعد تبعِ تابعین کا زمانہ آیا یہ بھی پیارا دور تھا ان تین ادوار کو قُرُوْنِ ثَلَاثَہ کہا جاتا ہے ان میں مساجد آباد ہوتی تھیں فاسق اور گناہ گار کم تھے لیکن بعد میں جیسے جیسے دوری ہوتی گئی گناہوں کا سلسلہ بڑھتا گیا نمازیوں کی تعداد بھی کم ہوگئی اور مسلسل کم ہوتی جارہی ہے۔([xii])

اب صورتِ حال یہ ہے کہ 2021ء کے ایک سروے کے مطابق دنیا میں تقریباً 3.6 ملین یعنی 36لاکھ مساجد ہیں۔ (WEB: TRT Word) اور 2ارب سے زائد مسلمان ہیں۔ (WEB:worldpopulationreview) لیکن بہت ہی کم مسلمان نمازِ باجماعت کےلئے مسجد میں پہنچتے ہیں حالانکہ آج کثیر مساجد میں ائیر کنڈیشن، ہیٹر اور وضو وغیرہ کیلئے جیسی جدید اور وسیع سہولتیں موجود ہیں ان کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔

مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے

من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا([xiii])

ہمارا شمار کن میں ہوتا ہے؟

ہم میں سے ہر ایک کو غور کرنا چاہئے کہ ہمارا شمار مسجد جانے والوں میں ہوتا ہے یا نہ جانے والوں میں؟ اگر خدانخواستہ مسجد میں باجماعت نماز اور دیگر عبادتیں ہمارا معمول نہیں ہیں تو سُستی اور غفلت چھوڑ کرآج اور ابھی سے سنبھل جائیے، بلکہ اپنے گھر والوں اور آس پڑوس کو بھی نیکی کی دعوت پیش کیجئے کیونکہ مسجدیں ہماری ہیں، اگر ہم انہیں بارونق نہیں بنائیں گے تو کون بنائے گا!شیخِ طریقت امیر ِاہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اپنا واقعہ بتایا کہ اَلحمدُ لِلّٰہ میرا دعوتِ اسلامی بننے سے پہلے بھی نمازوں کی ترغیب دلانے کا معمول تھا۔ اس وقت میں نے ایک اسلامی بھائی پر انفرادی کوشش کی اور نماز کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ میں فجر میں آپ کو جگانے کے لئے آؤں گا یا کسی کو بھیجوں گا چنانچہ جب ہم ان کے گھر جگانے کے لئے پہنچے تو وہ اسلامی بھائی پہلے ہی اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے ہمارا انتظار کر رہے تھے یعنی ہمارے جگانے سے پہلے ہی وہ جاگ چکے تھے۔ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ ہم جس کو یہ کہیں کہ آپ کو جگانے کے لئے آئیں گے تو وہ نفسیاتی اثر ہونے کی وجہ سے بے چین ہوتا ہے کہ کہیں فلاں اسلامی بھائی مجھے جگانے آئیں اور میری آنکھ ہی نہ کھلے تو وہ کیا سوچیں گے؟ اسی وجہ سے وہ پہلے ہی اٹھ جاتا ہے۔([xiv])

قارئین! ہر کام کا طریقہ ہوتا ہے یہ سیکھنے کے لئے نمازی بنانے اور سنتیں سکھانے والی انٹر نیشنل تنظیم ”دعوتِ اسلامی“ سے وابستہ ہوجائیے۔دعوتِ اسلامی نے مسجد بھرو تحریک چلا رکھی ہے، یہ اکثر دینی کاموں کے لئے مساجدکا ہی انتخاب کرتی ہے۔ ہفتہ وار اجتماع، مدنی مذاکرہ، اجتماعی اعتکاف ہو یا نماز و دیگر شرعی مسائل سکھانے کے مختلف کورسز، مدنی قافلوں کی آمد و رفت اور ٹھہرنے کا انتظام بھی مسجد میں ہوتا ہے۔

مجھے مسجدوں سے دے الفت الٰہی!

کروں خوب تیری عبادت الٰہی!

یہ دل میرا مسجد میں لگ جائے یارب!

نہ سُستی ترے ذکر میں آئے یارب!([xv])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ کراچی)



([i])ابن ماجہ،1/438،حدیث:800

([ii])شرح ابن ماجہ للسیوطی،ص360

([iii])مرقاۃالمفاتیح،2/385

([iv])مراٰۃ المناجیح، 2/87

([v])تیسیر شرح جامع صغیر،2/347

([vi])النہایہ فی غریب الحدیث والاثر،3/357

([vii])مستدرك،3/162،حدیث:3559

([viii])مراٰۃ المناجیح،1/435

([ix])حلیۃ الاولیاء،2/186، رقم:1874

([x])ذم الهوٰی، ص55

([xi])سیر اعلام النبلاء،6/244

([xii])دیکھئے:ملفوظاتِ امیر اہلسنّت،2/440

([xiii])ڈاکٹر اقبال

([xiv])ملفوظات امیر اہلسنت،2/441

([xv])فیضانِ نماز،ص235، 236۔


Share