روح معلق رہتی ہے

شرح حدیث رسول

روح معلق رہتی ہے

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ء

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهٖ حَتّٰى يُقْضٰي عَنْهُ ترجمہ :مؤمن کی روح قرض کی وجہ سے مُعَلَّق (یعنی لٹکی)  رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کر دیا جائے۔ ([1])

شرحِ حدیث:  (مؤمن کی روح )یا تو فی الحال جنّت میں داخل ہونے یا نیکوں کے ساتھ ملنے یا درجات حاصل کرنے سے روکی جاتی ہے۔ ادائے قرض کی منتظر رہتی ہے یا قیامت میں قرض کی ادا تک جنت میں جانے سے روکی جائے گی جب تک کہ قرض کی معافی یا کوئی اور صورت نہ ہو جائے،کتنی ہی صالح نیک ہو جنت میں داخل نہ ہو سکےگی۔

کون سا قرض مراد ہے ؟

یہاں قرض سے وہ قرض مراد ہے جو انسان بغیر ضرورت کے لے لے اور ادا کرنے میں بلا وجہ ٹال مٹول کرے اور مرتے وقت ادا کے لیے مال نہ چھوڑے۔

 اگر ان تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اُمّید ہے کہ اسے محبوس نہ کرے گا(یعنی جنت میں جانے سے نہ روکے گا)، جیساکہ دوسری احادیث میں ہے۔ چنانچہ ابنِ ماجہ میں ہے کہ قیامت میں قرض خواہ کو مقروض سے قصاص دلوایا جائے گا سوائے تین مقروضوں کے: ایک وہ جو جہاد وغیرہ دِینی ضروریات کے لئے قرض لے۔ دوسرےوہ جس کے ہاں بے کفن میت پڑی ہو اس کے کفن دفن کے لئے قرض لے۔ تیسرے وہ جو اپنے دِین پر خطرہ محسوس کرےاور نکاح کے ضروری و جائز خرچ کے لئے قرض لے، ان کے قرض رب تعالیٰ قرض خواہوں سے معاف کرادے گا۔([2])

اس دنیا میں انسان کو اپنے کئی معاملات میں دوسروں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ انسان اپنے مسائل وسائل کے ذریعے ہی حل کرسکتا ہے۔ قرض کا لین دین بھی اس میں شامل ہے۔ لیکن افسوس کہ جب قرض لوٹانے کی باری آتی ہے تو  کئی لوگ بہت نامناسب رویے اختیار کرتے ہیں۔  قرض لے کر واپس کرنے والے بنیادی طور پر تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں:

(1)ایک وہ جو بڑی خوش اسلوبی سے وعدہ کے مطابق قرض لوٹا دیتے ہیں۔

(2)دوسرے وہ جو بہانے بازیاں کرکے اتنا ٹالتے ہیں کہ بے چارہ تنگ پڑ جاتا ہے پھر ایسابھی ہوتا ہے کہ وہ اپنی رقم کی واپسی سے مایوس ہوکر مطالبہ ہی چھوڑ دیتا ہے۔

(3)تیسرے وہ جن پر سختی کی جائے یا وصول کرنے والا تگڑا شخص ہو تو ہی قرض واپس کرتے ہیں۔

بہر حال قرض لے کر واپس نہ کرنے سے جھگڑے بڑھتے ہیں، بھروسا اٹھ جاتا ہے۔ نیز جان بوجھ کر قرض واپس نہ کرنے والوں کے لئے آخرت میں آزمائش ہوسکتی ہے، جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:  جس آدمی نے واپس نہ کرنے کے ارادے سے قرض لياتو اس نے دھوکا کيا يہاں تک کہ اس کامال لے کر مر گيا اور اس کا قرض ادا نہ کيا تو وہ اللہ سے چور بن کر ملے گا۔([3])

ایک اور حدیثِ پاک میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! اگر کوئی آدَمی اللہ  پاک کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زِندہ ہو پھر اللہ پاک  کی راہ میں قتل کیا جائے پھر زندہ ہو اور اس کے ذِمّہ قرض ہو تو وہ جنَّت میں داخِل نہ ہوگا یہاں تک کہ اُس کا قرض ادا کر دیا جائے۔“([4])

اگر قرض لینے میں نیت اچھی ہو!

اللہ کی رحمت کے کیا کہنے! اگر بندۂ مؤمن کی قرض لیتے وقت نیت اچھی ہو اور وہ اپنی نیت و ارادے پر قائم رہے لیکن قرض ادا نہ کرپائے تو اللہ کریم اس کے حق میں خیر کا معاملہ فرمائے گا جیسا کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:اللہ پاک قيامت کے دن قرض لينے والے کو بلائے گا يہاں تک کہ بندہ اس کے سامنے کھڑا ہو گا تو اس سے کہاجائے گا:اے ابنِ آدم! تُو نے يہ قرض کيوں ليا؟ اور لوگوں کے حقوق کيوں ضائع کئے؟وہ عرض کرے گا:اے رب کریم! تو جانتاہے کہ میں نے قرض ليا مگرنہ اسے کھايا ،نہ پيا، نہ پہنا، اور نہ ہی ضائع کيا، البتہ وہ يا تو جل گيا ياچوری ہو گيا يا جتنے میں خريدا تھا اس سے کم میں بيچ ديا تو اللہ پاک ارشاد فرمائے گا: ميرے بندے نے سچ کہا، میں اس بات کازيادہ حق رکھتا ہوں کہ تیری طرف سے قرض ادا کروں۔ اللہ پاک کسی چیز کو بلائے گااور اسے اس کے ترازو میں رکھے گا لہٰذا اس کی نيکياں برائيوں سے زيادہ ہو جائيں گی اور وہ اللہ پاک کے فضل و رحمت سے جنت میں داخل ہو جائے گا۔([5])

کرنے کا کام

محترم قارئین! قرض بہت بڑا بوجھ ہےجو لوگ ادائے قرض میں ٹالَم ٹول کرتے ہیں اُن کو ڈرجانا چاہے اور قرض خواہ (یعنی جس سے قرض لیا ہے اُس) کو اپنے پاس دھکے کِھلانے کے بجائے خود اُس کےپاس جاکر شکریہ کے ساتھ اس کاقرض ادا کردینا چاہئے۔آج تک جس سے جتنا قرض لیا ہے،تھوڑا یا زیادہ! قرض وصول کرنے والا بے بس ہو کر مطالبہ کرنا چھوڑ چکا ہو تو بھی حساب لگا کر قرض ادا کرکے اپنا کھاتہ    کلیئرکرلیجئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ جُھوٹ مُوٹ آج کل کرتے ہوئے موت آجائے اور قَبْر میں جان پھنس جائے۔

میت کے قرض کا اعلان

کوئی مسلمان مقروض فوت ہوجائے تو عزیزوں کو چاہیے کہ فوراً اُس کا قرضہ ادا کردیں تاکہ مرحوم کے لئے قبر میں آسانی ہو۔

شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہنے ایک اعلان ترتیب دیا ہے، حسبِ موقع نمازِ جنازہ کے وقت یا ایصال ثواب کی محفل میں کیا جاسکتا ہے :

مرحوم کے عزیز و اَحباب توجُّہ فرمائیں! مرحوم نے اگر زندگی میں کبھی آپ کی دل آزاری یا حق تَلَفی کی ہو یا آپ کے مقروض ہوں تو ان کو رِضائے الٰہی کے لئے معاف کردیجئے، اِن شآءَ اللہ مرحوم کا بھی بھلا ہوگا اور آپ کو بھی ثواب ملے گا۔([6])

اللہ  کرے کہ ہمیں کبھی قرض لینے کی نوبت نہ آئے اور کسی صورت میں آبھی جائے تو اسے واپس کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])ترمذی ،2/341،حدیث:1080

([2])مراٰۃ المناجیح،4/299ملتقطاً

([3])المعجم الاوسط،1/501،حدیث:1851

([4])مسند امام احمد8/348،حدیث:22556

([5])مسند احمد،1/420،حدیث:1708

([6])نماز جنازہ کا طریقہ،ص19


Share