مقروض پر نرمی

حکایت نبیِّ کریم علیہ الصلوۃ و السَّلام کاارشاد ہے: تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس کے پاس اس کی روح قَبْض کرنے فِرِشْتہ آیا تو اُس سے کہا گیاکہ کیا تو نے کوئی نیکی کی ہے؟ وہ بولا: میں نہیں جانتا۔ اس سے کہا گیا:غور تو کر۔ اس نے کہا: اس کے سِوا اور کچھ نہیں جانتا کہ میں دنیا میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور ان پر تقاضا کرتا تھا تو امیر کو مہلت دے دیتا اور غریب کو مُعافی۔پس اللہ تعالیٰ نے اسے جنّت میں داخل فرما دیا۔

 (بخاری،ج2،ص460،حدیث:3451)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مَقْرُوض سے ہمیشہ نرمی اور حُسْنِ سُلوک سے پیش آناچاہئے۔ضَرورت مندوں کو قَرْض دینا اور قَرْض کی بہترین ادائیگی کرنا، اسلام میں جہاں اس کی ترغیب ہے وہیں تنگدَسْت مقروض سے شفقت و مہربانی اور نرمی  سے پیش آنا بھی اسلامی تعلیمات کا روشن باب ہے۔قرض دینے کا بنیادی مقصد (Basic Purpose) یہ ہوتا ہے کہ ضَرورت مند کی مَعاشی اور گھریلو پریشانیاں خَتْم ہوجائیں،اس سوچ کےتحت اچّھی اچّھی نیتوں کے ساتھ دیا جانے والاقرض ثواب کا ذریعہ بھی بنے گا۔ مقروض پر نرمی کے طریقے  نہایت آسان اور نَرْم شرائط رکھی جائیں۔ ایسی کڑی شرائط رکھ دینا کہ مقروض پِس کے رہ جائے باہَمی اُلْفت کو ختم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ یَکْمُشْت ادائیگی نہ کر سکنے کی صورت میں قِسْطوں(Installments)  میں تقسیم کر دیجئے۔ وُصُول کرتے ہوئے رَویہّ میں نَرْمی بہت ضَروری ہے، ادائیگی میں تاخیر پر خوامخواہ شور مچانا، باتیں سنانا مسئلہ کو حل کرنے کی بجائے مزید اُلجھا دےگا۔اگر قُدْرت ہو تو مکمل یا کچھ مُعاف کر دیجئے۔ افسوس! آج کل ہمارے یہاں مقروض سے نرمی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے حالانکہ اس کے بہت فضائل ہیں۔ 2فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم (1) جو کسی تنگدست (مقروض) پر آسانی کرے گا اللہ  تعالیٰ دنیا و آخِرت میں اس پر آسانی فرمائے گا۔ (ابن ماجہ،ج 3،ص147، حديث: 2417) (2)جو  کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کاقرض مُعاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن عَرْش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا کہ جس دن عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (ترمذی،ج3،ص 52، حديث:1310) مقروض سے زیادَتی کی مثالیں افسوس! ہمارے ہاں ایک تعداد سُودی قرضے دینے پر تو آمادہ نظر آتی ہے مگر بغیر نفع کےقرضِ حَسَنہ([1])دیتے ہوئے ان کی جان جاتی ہے حالانکہ سُودی لین دین دنیا و آخرت کی تباہی کا سبب ہے۔ بعض لوگ مقروض کی بے بسی کا فائدہ اس طرح سے اٹھاتے ہیں کہ اسے اپنا زَرخرید غلام سمجھ لیتے ہیں خصوصاً گاؤں گوٹھوں میں یہ صورتحال زیادہ ہے کہ مقروض کے پورے کنبے کو اپنا غلام تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں بلیک میل کرنا،  ڈرانا دھمکانا عام ہے۔ بعض لوگ مقروض کی عزّتِ نفس کو مَجْروح (Hurt) کرتے نظر آتے ہیں،اس طرح کہ ادائیگی میں تاخیر ہونے پر مقروض کی بے عزّتی کرنے میں   ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ مکان یا دکان کاکرایہ مانگتے ہوئے جان بوجھ کر شور مچاکر پڑوسیوں کو جمع کرتے ہیں اور پھر سب کے سامنے مقروض کی عزت کی دھجّیاں بَکھیرتے اور اِیذائےمسلم جیسے کبیرہ گناہ میں مُلَوَّث نظر آتے ہیں۔ ایسوں کو بھی مقروض سے نرمی اور آسانی کا مُظاہرہ کرنا چاہئے۔

اگر قرض دار مالدار ہے اور ادائیگی پر قادر ہونے کے باوجود قرض ادا نہ کرے تو قرض خواہ سختی کے ساتھ اپنے قرض کا مطالبہ کرسکتا ہے امام اہلِ سنّت امام احمد رضا خان  علیہ رحمۃ  الرَّحمٰن فرماتے ہیں: جو دے سکتاہے اور بلاوجہ لیت ولعل کرے وہ ظالم ہے اور اس پر تشنیع وملامت جائز۔(فتاویٰ رضویہ ،ج 23،ص286)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…شعبہ فیضان صحابہ و اہل بیت ،المدینۃالعلمیہ باب المدینہ کراچی



[1] ۔۔۔ وہ قرض جس کی ادائیگی کی کوئی مدت مقرر  نہ ہو اور نہ ہی سود ہو۔


Share