تعزیت کی تعریف اور حکم

”موت“ ایک اٹل حقیقت ہے، جس کا ذائقہ ہر جان کو چکھنا ہے اور اس حقیقت کو ہر شخص تسلیم کرتا ہے۔ کسی بھی شخص کے مرنے سے اس کے گھروالوں پر گویا قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، ایسے موقع پر قریبی رشتہ داروں کا رَنج و غم میں مبتلا ہونا ایک فطری عمل ہے۔اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جانے والی تعزیت سے میت کے عزیزوں کو نہ صرف حوصلہ ملتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حال میں تنہا نہیں چھوڑا۔ اسلام نے ایسے مبارک اصول دیئے ہیں کہ زندگی کے سفر میں کوئی تنہا نہ رہے۔ غور کیجئے! جب کوئی اپنا دنیا چھوڑ کر جا چکا ہو، سوگواروں کا دل اس کے غم میں ڈوبا ہو اور بندہ تصویرِ غم بنا ہو ایسے میں کوئی اسلامی بھائی آکر دل کو ڈھارس دے، دل جوئی کی باتیں کرے اور شاہراہِ حیات پر سفر جاری رکھنے کا حوصلہ دے تو احساس ہوتا ہے کہ دینِ اسلام کا دیا ہوا طریقۂ تعزیت کتنا خوبصورت ہے۔ عموماً مرنے والے کے عزیز، رشتہ دار اور دوست احباب میں سےکچھ تو جنازے میں شریک ہوجاتے ہیں، جبکہ کچھ بوجوہ اس میں شرکت سے محروم رہتے ہیں۔ وہ کب میت کے اہلِ خانہ کے پاس آئیں اور ان کا غم غلط کریں، اس کے لیے شریعت نے وقت موت سے تین دن تک مقررفرمائے ہیں، اِس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے مگر اُسے علم نہیں تو بعد میں حر َج نہیں۔(جوہرۃ نیرۃ، 114، رد المحتار،ج3،ص177)

تعزیت کی تعریف اور حکم مصیبت زدہ آدمی کو صبر کی تلقین کرنا تعزیت کہلاتا ہے اور یہ مسنون(یعنی سنّت)ہے۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص852 ماخوذاً، اردولغت،ج5،ص293 ماخوذاً)کوئی بھی مصیبت پہنچے اس پر صبر کی تلقین تعزیت کے زمرے میں آئے گی۔ پہلے کے مسلمان دوسروں کے غم کو اپنا غم سمجھتے تھے ۔ اب یہ تاثر ختم ہوتا جارہا ہے اور تعزیت محض رسم کی حیثیت اختیار کرتی جارہی ہے۔

حکایت حضرت سیِّدُنااعمش رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: ہم جنازوں میں شریک ہو تے تھے مگر مجمع میں ہرشخص کے رنج وغم کی تصویر نظر آنے کے سبب ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ کس سے تعزیت کریں؟

(احیاء العلوم،ج 5،ص235)

2فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم(1)جو کسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے، اس کے لئے اس مصیبت زدہ جتنا ثواب ہے۔ (ترمذی،ج 2،ص338، حديث:1075) (2)جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک اسے جنّت کے جوڑوں میں سے دو ایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔

(معجم اوسط،ج 6،ص429، حدیث: 9292)

تعزیت کے فوائد اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلِ میت صدمے سے چُور ہوتے ہیں اور کئی اندیشوں میں گھِرے ہوتے ہیں ایسے نازک وقت میں انہیں سہارادینا بہت بڑی مدد ہے۔ اسی طرح تعزیت سے اہلِ میّت کی مصیبت میں تخفیف ہوتی اور ان کی ضرورتوں کی تکمیل کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ یہ موقع مسلمان میّت کے لئے دعائے مغفرت کرنے اور نیک اعمال کرکے ان کا ثواب میت کو ایصال کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ تعزیت مسلمانوں میں یکجہتی اور ہمدردی کے فروغ کے ساتھ صلۂ رحمی، دل جوئی اور خیرخواہی جیسے نیک کاموں کا ذریعہ ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سے اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتسلیم کی رضا ملتی ہے۔

تعزیت کے آداب(1)مستحب یہ ہے کہ میّت کے تمام اقارب کو تعزیت کریں مگر عورت کو اُس کے محارم ہی تعزیت کریں۔ (بہارِ شریعت،ج1،ص852 بتصرف) (2)تعزیتی الفاظ نرم ہوں جو تسلی، صبر اور دلجوئی پر مشتمل ہوں۔ امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوَالی لکھتے ہیں کہ دورانِ تعزیت غم کا اظہار کرنا چاہئے۔(احیاء العلوم،ج 2،ص264) (3)تعزیت کے نام پر جمع ہو کر خوش گپیوں میں لگنے کے بجائے بنیتِ ایصال ثواب ذکر و اذکار میں مصروفیت میت اور اپنی آخرت کی بہتری کا بھی باعث بنےگی۔


Share