کیا عورت ایسےجوتےاستعمال کرسکتی ہےجس میں چاندی کا کام ہوا ہو؟

اسلامی بہنوں کے شرعی مسائل

*مفتی ابو محمد علی اصغر  عطاری  مَدَنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اگست2022ء

 ( 1 ) کیا عورت ایسےجوتےاستعمال کرسکتی ہےجس میں چاندی کا کام ہوا ہو ؟

سوال : کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارے میں  کہ کیا عورتوں کےلیے ایسےجوتے استعمال  کرنا ، جائز ہے جس میں چاندی کا کام  کیاہوا ہو ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

عورتوں کے لئے سونا اور چاندی پہننا ، مطلقاً جائز ہے لہٰذا عورتوں کےلئےایسے جوتےپہننا بھی جائز ہے جن میں چاندی کا کام ہوا ہو۔

رد المحتارمیں ہے : ” لا بأس لهن بلبس الديباج والحرير والذهب والفضة واللؤلؤ “ یعنی عورتوں کےلیے موٹا ریشم ، باریک ریشم ، سونا ، چاند ی اور موتی پہنناجائز ہے ۔ ( ردالمحتار ، 8 / 582 )

فتاویٰ تاتارخانیہ میں چاندی کےکام والےجوتے استعمال کرنےکے متعلق ہے : ” سئل ابوحامدعن امرأة لها صندلة في موضع القدم عنها سمك متخذ من غزل الفضة وذلك الغزل مما يخلص ، ھل یجوز لها استعمال تلک الصندلۃ ؟ فقال نعم “ یعنی ابو حامد سے ایک عورت کے بارےمیں سوال کیاگیا ، جس کے پاس تسموں والی   جوتی  ہےاس میں پاؤں رکھنے کی جگہ پر چاندی کے دھاگے سے بنی ہوئی ، موٹی تہہ لگی ہے ، یہ دھاگہ خالص چاندی کا ہے توکیا عورت کے لیے اس  جوتی کا استعمال حلال ہے ؟ توآپ نے فرمایاکہ جائز ہے۔

 ( فتاویٰ تاتارخانیہ ، 18 / 122 )

سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان  رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ  میں عورت کےلیے چاندی کی چپل پہننے کے بارے میں فرماتے ہیں : ” سُچے کام کا جوتا عورتوں کےلیے مطلقاًجائز اور مردوں کے واسطے بشرطیکہ مغرق نہ ہو ، نہ اس کی کوئی بوٹی چار انگل سے زیادہ  کی ہو ۔ “ ( فتاویٰ رضویہ ، 22 / 150 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

 ( 02 ) دو ماہ کا حمل ساقط ہونے پر عدتِ وفات پوری کرنا ہوگی یا نہیں ؟

سوال : کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک عورت کا شوہر 30 نومبر کو وفات پا گیا ، اسی دن پتا چلا کہ عورت حاملہ ہے۔ 22 دسمبر کو عورت کو مسلسل حیض کے دنوں کی طرح خون آ رہا ہے اور ساتھ میں گوشت کے لوتھڑے بھی نکل ر ہے  ہیں۔ چیک کرنے پر پتاچلا کہ حمل ضائع ہو گیا ہے۔ حمل تقریباً دو مہینے کا تھا۔ اس صورت میں عدتِ وفات پوری کرنا ہو گی یا عدت ختم ہو گئی ؟

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

 پوچھی گئی صورت میں عورت پرلازم ہے کہ شوہر کی وفات سے چار ماہ دس دن عدت گزارے ۔ دو مہینے کا حمل ساقط ہونے سے عدت پوری نہیں ہوئی کیونکہ حمل ساقط ہونے سے عدت پوری ہونے کی شرط یہ ہے کہ بعض یا کُل اعضا بن چکے ہوں اور اعضا چار مہینےیا ایک سو بیس دن میں بنتے ہیں ، اس سے پہلے اعضا نہیں بنتے۔ چونکہ دو ماہ کا حمل ساقط ہوا ہے تو یہ خون کا لوتھڑا یا گوشت کا ٹکڑا تھا جس کے اعضا نہیں بنے تھے ، اسی بِنا پر حمل ساقط ہونے سے عدت پوری نہیں ہوئی۔ ( بدائع الصنائع ، 3 / 311 ، ردالمحتار ، 5 / 192 ، بہارِشریعت ، 2 / 239 )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*  ( محققِ اہلِ سنّت ، دارُالافتاء اہلِ سنّت نورُالعرفان ، کھارادر کراچی )


Share

Articles

Comments


Security Code