محبت کیوں اور کس سے؟

اسلام کی روشن تعلیمات

محبت کیوں اور کس سے ؟

*مولانا ابوواصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2022ء

حقیقی محبت ایسی منزل ہے جہاں شائقین پہنچنا چاہتے ہیں ، یہ دِلوں کی خوراک ، روحوں کی غذا ، اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ، یہ وہ زندگی ہے جس سے محروم شخص مُردوں میں شمار ہوتا ہے ، یہ وہ نور ہے جس نے اسے کھودیا وہ اندھیروں میں بھٹکتا پھرتا ہے ، یہ ایسی شفا ہے جس سے محروم رہنے والے کے دل میں تمام بیماریاں ڈیرہ ڈال لیتی ہیں ، یہ وہ لذّت ہے جواسے پانے میں کامیاب نہ ہوا اس کی ساری زندگی غموں اورتکالیف میں گزرتی ہے ، یہ ایسانشہ ہے جس میں مبتلا ہونے والامحبوب کو دیکھ کر ہی ہوش میں آتاہے ، یہی تو ہے جو ایمان ، اعمال ، مقامات اور احوال کی روح ہے ، اگر ان سے محبت نکل جائے تو یہ سب بے روح کے اجسام کی مانند رہ جائیں۔

محبت کیا ہے ؟  کسی نے کہا : محبوب موجود ہو یا غائب بہرصورت اس کی موافقت کرنا محبت ہے۔ کوئی کہتا ہے : محبت کرنے والے کی صفات مٹ جائیں اور محبوب کی ذات وصفات میں فنا ہوجائیں ، یہ ہے محبت۔ کوئی بولا : اپنی طرف سے زیادہ کو کم اور محبوب کی جانب سے کم کو زیادہ سمجھنا محبت ہے۔ کسی کے نزدیک محبت یہ ہے کہ اپنی چھوٹی سی غلطی کو بڑا اور اپنی اطاعت کو کم سمجھنا۔ کسی نے بتایا : اطاعت اپنانا اور مخالفت چھوڑ دینا محبت ہے۔ ایک نے تو یہاں تک فرمایا : تواپناسب کچھ اپنے محبوب کودے دے اور تیرے لئے کچھ بھی نہ بچے ، مطلب اپنا ارادہ ، جان مال ، وقت سب کچھ محبوب کے سپرد کردے بس یہی محبت ہے۔ یہ بھی کہا گیاہے : دل سے اپنے محبوب کے علاوہ ہرکسی کی یاد مٹا دے۔ ایک عاشق نے تو انتہا کردی ، بولے : محبت یہ ہے کہ تجھے اپنے محبوب کے متعلق یہ غیرت ہوکہ تجھ جیسا آدمی اس سے محبت کرتا ہے ، مطلب تو خود کو حقیر جانے اور کمتر سمجھے ، یایہ سمجھے کہ تجھ جیساشخص اس محبوب سے محبت کرنے والوں میں شامل ہے۔ کسی نے اہلِ محبت کو یہ بتایا : تمہارامکمل طورپر کسی چیز کی طرف مائل ہونا پھر اس کواپنے نفس ، روح اور مال پر ترجیح دینا پھر ظاہر وباطن میں اس کی موافقت کرنا اور پھر بھی سمجھنا کہ تم نے اس کی محبت میں کوتاہی کی ہے ، یہ ہے محبت وعشق۔

محبت کیوں ہوتی ہے ؟  وجہ کیا ہے ؟  سبب کیا ہے ؟  باعث کیا ہے ؟  صورت حسین ہو تو محبت ہوجاتی ہے ، اچھی آواز سے محبت ہوجاتی ہے ، اچھے منظر سے محبت ہوجاتی ہے ، کسی کی طاقت اپنی محبت میں جکڑ لیتی ہے ، کوئی احسان کردے تو محبت ہوجایا کرتی ہے ، کوئی جان بچالے ، مشکل سے نکال دے ، تنگی دور کردے تو اس سے محبت ہوجاتی ہے ، کبھی کسی کا علم و دانشوری بھی محبت میں گرفتار کرلیتے ہیں۔

پھر محبت کے تقاضے بھی ہیں صاحب ! دل جانبِ محبوب محوِ سفر رہتا ہے ، زبان ذکرِ محبوب سے تَر رہتی ہے ، کیونکہ اس حقیقت میں کوئی دو رائے نہیں کہ جس سے محبت ہوجائے اس کا ذکر کثرت سے کیا جاتا ہے ، محبوب کی بات مانی جاتی ہے ، اس کی موافقت کی جاتی ہے ، جو محبوب کو اچھا نہ لگے اس سے کنارہ کرلیا جاتا ہے ، محبوب کی ناپسندیدہ چیزیں چھوڑ دی جاتی ہیں ، اور جس سے محبوب صاف منع کردے اس سے تو بالکل منہ موڑنا پڑتا ہے ورنہ محبت میں جھوٹا قرار پاتا ہے ، جب محبت ایسی مرغوب و معظم شے ہے تو کوئی پتھر دل بے ذوق و بےحس ہی ہوگا جو اسے نہ اپنائے ، اور کیوں نہ اپنائے کہ یہ انسانی فطرت میں شامل ایک جذبے کا نام ہے ، مختلف چیزیں انسان کو متأثر کرتی ہیں اوروہ ان سے محبت کرنے لگتاہے۔

مگر ٹھہرئیے ! ذرا سوچئے ! یہ کیسی محبت ہے جس نے بندے کو اپنے خالق حقیقی سے دور اور دین سے بیزار کردیاہے جس نے صحیح اورغلط کی پہچان مٹادی ہے جس نے معاشرتی اقدارکی جڑیں کھوکھلی کردیں ، جس نے ایک خوبصورت جذبہ کونفسانی خواہشات کی تکمیل تک محدود کردیا ہے ، جس نے محبت کو زوجیت کے دائرے سے نکال کر ایک غیرفطری دائرے میں داخل کردیاہے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دِلوں میں محبت کا سچا جذبہ پیدا کیا جائے مگر یہ کیا ؟  محبت کے نام پر برائی اور بےحیائی کو فروغ دیا جانے لگا اسے محبت کہنا محبت کی توہین ہے محبت کے نام پر دَھبّہ ہے محبت کو بدنام کرنا ہے ہاں اسے نفس کو  ’’ وقتی تسکین ‘‘ دینے اورذہنی سکون کے  ’’ مصنوعی حل ‘‘ کی ایک ناکام کوشش ضرور کہا جاسکتاہے۔

حقیقی محبت تو یہ ہے کہ تم اپنے خالق ومالک ربِ کریم سے محبت کرو اپنے پیارے نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عشق کرو کہ جنہیں اپنی اُمّت سے بے مثال محبت ہے محبت ہو تو حضرات انبیائے کرام علیہم السّلام سے ہو محبت کرنی ہے تو اولیائے عظام سے کرو ، صالحین سے کرو ، متقی و پرہیزگاروں سے کرو ، اپنے والدین سے کرو ، بیوی بچّوں سے کرو ، بہن بھائیوں سے کرو ، دوست احباب سے کرو ، غریبوں سے کرو یہی تو کام کی محبتیں ہیں برکت والی ، رحمت والی ، عافیت والی ، سلامتی والی ، خیروالی اور دنیا وآخرت میں فائدے والی ہیں۔

اس بابِ محبت میں حرفِ آخر کہہ دوں ؟  تو سنو ! محبت کا حقیقی اظہار عمل کا متقاضی ہے اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ محبت ایمان واطاعت سے پہچانی جاتی ہے والدین سے محبت ان کی خدمت میں پوشیدہ ہے اولاد سے محبت ان کی اعلیٰ تربیت میں پنہاں ہے اورانسانوں سے سچی محبت ہر دکھ سکھ میں ان کے کام آنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ سچی محبت قربانی اور ایک دوسرے کی خیرخواہی کا مطالبہ کرتی ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، اسلامک ریسرچ سینٹر المدینۃُ العلمیہ کراچی


Share