شانِ سیّد الاتقیاء

سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی (قسط:17)

شانِ سیّد الاتقیاء

* مولانا ابوالحسن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی2022

 گزشتہ سے پیوستہ

 (28)اَنَا اَتْقَاكُمْ لِلَّهِ، وَاَعْلَمُكُمْ بِحُدُودِ اللهِ ترجمہ :  میں تم سب سے بڑا متقی اور حدودِ خداوندی کا عالم ہوں ۔   [1]

رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے یہ مبارک فرمان کچھ الفاظ کے فرق سے مختلف مواقع پر ارشاد فرمایا ہے  ، بعض روایات میں  ” اخشاكم “  کا لفظ بھی آیا ہے جبکہ بعض میں  ” اَعْلَمُکُمْ بِحُدُوْدِ اللہ “  کی جگہ صرف ” اَعْلَمُکُمْ بِاللہ “  کے الفاظ ہیں ۔  

اس فرمانِ عالیشان کا پس منظر مختلف واقعات ہیں چنانچہ ایک انصاری صحابی نے روزے کی حالت میں اپنی اہلیہ کا بوسہ لے لیا  ، اب وہ خوف زدہ ہوئے کہ کہیں میرا روزہ تو نہیں ٹوٹ گیا ، جب رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں اس کے متعلق سوال عرض کیا گیا تو آپ نے فرمایا :  اللہ کے رسول بھی یہ عمل کرتے ہیں(یعنی روزہ کی حالت میں بیوی کا بوسہ لینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا) جب ان انصاری صحابی کو یہ جواب پہنچا تو انہوں نے گمان کیا کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  تو ہم جیسے نہیں ہیں  ، انہیں تو ان کے رب کی جانب سے کئی معاملات میں اختیار و خصوصیت حاصل ہے ممکن ہے کہ اس معاملے میں انہیں رخصت ہو  ، اب پھر یہ سوال پیارے مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں پیش کیا گیا تو رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا :   ” اَنَا اَتْقَاكُمْ لِلَّهِ، وَاَعْلَمُكُمْ بِحُدُودِ اللهِ “  میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور تم سب سے زیادہ اللہ کی حدود کا جاننے والا ہوں ۔   [2]

اسی طرح ایک روایت حضرت انس سے بھی ہے کہ کچھ افراد نے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ازواجِ مطہرات سے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی عبادت کے بارے میں معلوم کیا  ، جب انہیں عبادات کی خبر دی گئی تو انہوں نے گمان کیا کہ وہ تو اللہ کے محبوب اور پیارے ہیں اور ان کے سبب تو ان کے اگلوں پچھلوں کی خطائیں معاف ہوئیں اس لئے ہمیں تو بہت زیادہ عبادت کی ضرورت ہے چنانچہ ان میں سے ایک بولاکہ میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کروں گا  ، دوسرا بولامیں مسلسل روزہ دار رہوں گا  ، تیسرا بولا کہ میں عورتوں سے الگ رہوں گا کبھی نکاح نہ کروں گا  ، پھرنبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے پاس تشریف لائے اور فرمایا :  تم ہی وہ ہو جنہوں نے ایسا ایسا کہا خبردار رہو کہ  ” وَاللَّهِ اِنِّي لَاَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَاَتْقَاكُمْ لَهُ “  خدا کی قسم! میں تم سب میں ا سے زیادہ ڈرنے والا اور خوف کرنے والا ہوں لیکن میں (نفلی) روزے رکھتا بھی ہوں اور چھوڑتا بھی ہوں  ، (راتوں کو)نماز پڑھتا بھی ہوں اور سوتابھی ہوں  ، نکاح بھی کرتا ہوں  ، جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ۔   [3]

دیگر بھی چند روایات ہیں  ، بہرحال ان روایات اور حضور نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے فرمان پر غور کیا جائے تو ان احادیثِ کریمہ کے دوپہلو سمجھ میں آتے ہیں :  ایک یہ کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اعتدال کو پسند فرماتے ہیں اور دوسرا یہ کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ساری کائنات سے بڑھ کر متقی و پرہیزگار  ، اللہ کریم کا خوف رکھنے والے اور اللہ کریم کی حدود کے جاننے اور سمجھنے والے ہیں ۔  

پہلی صورت کا بیان تو گزشتہ روایات سے واضح ہوگیا  ، جبکہ دوسری صورت سمجھنے کے لئے حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی مبارک سیرت کا مطالعہ کیا جائے تو کئی ایسے مناظر و واقعات ملتے ہیں کہ جن میں سیدُ المرسلین کی شانِ تقویٰ و پرہیزگاری اور خوفِ خدا کا اعلیٰ مقام نظرآتاہے ۔  

یاد رکھئے! مقام و منصب جس قدر اعلیٰ اور اہم ہوتا ہے اسی قدر اس کے تقاضے اور احتیاطیں بھی زیادہ اور اہم ہوتی ہیں ۔    رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ساری کائنات میں افضل و اعلیٰ اور سب سے عالی رتبہ کے مالک ہیں  ، ربّ کریم نے ہر طرح کے خزانے اور اختیارات کا مالک بنایا لیکن اس کے باوجود ربّ کعبہ کی شانِ قہاری و جباری کے پیشِ نظر خوف و خشیت کے اعلیٰ وصف سے موصوف ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ یہ بھی آپ کے اللہ رب العزّت کی بارگاہ میں سب سے زیادہ مکرم و معزّز ہونے کی دلیل ہے جیساکہ قراٰن پاک میں ارشاد ہے : اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان :  بےشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے ۔ (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) [4]

چنانچہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا  ” اَنَا اَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَاَعْلَمُكُمْ بِحُدُودِ اللهِ  “  فرمانا واضح کرتاہے کہ آپ ہر لحاظ سے اور ساری کائنات سے بڑھ کر اپنے ربّ کی بارگاہ میں مکرم و معزز ہیں ۔    

آپ کے تقویٰ و پرہیزگاری کا یہ عالَم ہے کہ جسے چاہیں جنّت کا مژدہ سنادیں پھر بھی خوف و خشیت کی ایسی کیفیت کہ قبر کے کنارے کھڑے ہو کراس قدر گریہ و زاری فرماتے ہیں کہ زمین آنسوؤں سے نم ہوجاتی ہے اور اصحاب سے فرماتے ہیں :  اس قبر کے لئے تیاری کرو ۔   [5]

ربّ رحیم نے قراٰنِ کریم میں  ” وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْؕ- [6] فرما کر آپ کی امّت کو عذاب سے مامون ہونے کا مژدہ سنایا لیکن پھر بھی آپ اس قدر خوفِ خدا رکھتے کہ اگر کبھی تیز آندھی دیکھتے اور بادل آسمان پر چھا جاتے تو آپ کے چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہوجاتا اور آپ کبھی حجرۂ مبارکہ سے باہر تشریف لے جاتے اور کبھی واپس آجاتے  ، پھر جب بارش ہو جاتی تو یہ کیفیت ختم ہوجاتی ۔    بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے اس کیفیت کے بارے میں سوال کیا تو ارشاد فرمایا :   مجھے یہ خوف ہوا کہ کہیں یہ بادل اللہ پاک کا عذاب نہ ہو جو میری اُمّت پر بھیجاگیا ہو ۔   [7]

دن میں ستر ستر بار استغفار کرنا آپ کی عادت مبارکہ تھی  ، احادیثِ مبارکہ میں ایسی کثیر دعائیں مروی ہیں جن میں اللہ کریم سے خوف  ، عذاب سے پناہ اور تقویٰ و پرہیزگاری کا مضمون موجود ہے ۔  

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ  ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



[1] مسند احمد، 9/172، حدیث:23743

[2] مسند احمد،9/172،حدیث:23743

[3] بخاری، 3/421، حدیث:5064

[4] پ26،الحجرات: 13

[5] ابن ماجہ، 4/466،حدیث:4195

[6] ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب کرے جب تک اے محبوب تم ان میں تشریف فرما ہو۔(پ9،الانفال:33)

[7] شعب الایمان، 1/546، حدیث:994


Share

Articles

Comments


Security Code