دل کی سختی کے چند علاج

حدیث شریف اور اس کی شرح

دل کی سختی کے چند علاج

* مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ جولائی2022

حضورنبیِّ کریم ،   رءوف رحیم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص نےسخت دلی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : اِنْ اَرَدْتَ اَنْ يَلِينَ قَلْبُكَ ، فَاَطْعِمِ الْمِسْكِينَ وَامْسَحْ رَاسَ الْيَتِيم یعنی اگر تم دل کی نرمی چاہتے ہو تو مسکین کوکھانا کھلاؤ اور یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرو۔ [1]

اِس حدیثِ پاک میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دل کی سختی کے دو علاج عطافرمائے ہیں ،  علاج کی خوب صورتی پر غور کرنے سے یہ بات سامنےآتی ہےکہ یتیموں اور مسکینوں سےحسنِ سلوک اللہ پاک کی رحمت حاصل کرنے کاذریعہ ہے اور رحمتِ الہٰی دل کی نرمی کا سبب ہے  ۔  حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :  سُبْحٰنَ اللہ! عجیب علاج ہے یتیموں ،   مسکینوں پر مہربانی اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ذریعہ ہے اوراللہ کی رحمت سےدل نرم ہوتاہے ،   ربّ فرماتا ہے : اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍۙ(۱۵) اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍؕ(۱۶) ترجَمۂ کنزُالایمان :  یا بھوک کے دن کھانا دینا رشتہ دار یتیم کو یا خاک نشین مسکین کو۔ [2](اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) نرمیِ قلب اللہ کی بڑی رحمت ہے علاج بالضد ہوتاہےتکبر کا علاج تواضع (عاجزی) سے ،   بخل (کنجوسی) کاعلاج سخاوت سے ہوتاہے ایسےہی سختی دل کا علاج غریبوں یتیموں پر رحم سے ہے۔ [3]

دل کی سختی سے مراد کیا ہے؟

دل کی سختی کا مطلب ہوتا ہے کہ نصیحت دل پر اثر نہ کرے ،   گناہوں سے رغبت ہوجائے ،   گناہ کرنے پر کوئی شرمندگی نہ ہو اور توبہ کی طرف توجّہ نہ ہو۔ [4]

دل کی سختی معمولی بیماری نہیں :

دل کی سختی کوئی چھوٹی بیماری نہیں بلکہ اس کی وجہ سے انسان سے بڑے بڑے گناہ ہوجاتے ہیں ،  چوری ،  ڈکیتی اورقتل وغیرہ جیسےچھوٹے بڑے ظلم اور حق تلفی کے واقعات دل کی سختی کی وجہ سے ہوتے ہیں ،  دل سخت ہونے کی وجہ سے انسان بڑے سے بڑا گُناہ بھی کرجاتا ہے حتی کہ کُفر تک جاپہنچتا ہے ،   یہ بیماری اللہ پاک کی رحمت سےدور اورعبادت کی لذت ختم کردیتی ہے ،   سخت دل شخص گناہ کرنے میں دلیر ہوجاتا ہے ،  یہی وہ بیماری ہےکہ جس کی وجہ سے نصیحت کی دوائیں بھی بالکل بے اثر ہوجاتی ہیں۔  دل کی سختی کتنی بڑی سزا ہے ؟ اس کااندازہ حضرت مالک بن دینار رحمۃُ اللہِ علیہ کے اس فرمان سے بھی ہوتا ہے : اللہ کی طرف سے دلوں اور جسموں میں کچھ سزائیں ہیں مثلاً : روزی میں تنگی اور عبادت میں سُستی اور بندے کے لئے دل کی سختی سے بڑی کوئی سزا نہیں ہے۔ [5]

دل سخت ہوتا کیوں ہے؟

(1)زبان کا دل کے ساتھ گہراتعلق ہے ،   زبان جب زیادہ اور فضول چلتی ہےغلطیاں بھی اُتنی زیادہ کرتی ہے اور دل کی سختی کا سبب بنتی ہےغالباً یہی وجہ ہے کہ حدیث پاک میں زیادہ بولنے کو دل کی سختی کا سبب قرار دیا گیاہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : اے لوگو! ذِکْرُ اللہ کے بغیر کلام کی کثرت مت کِیا کرو!کیونکہ ذکرُ اللہ کے بغیر کثرت سے باتیں کرنادل کی سختی کا باعث ہے اوربے شک لوگوں میں اللہ پاک سے زیادہ دُور وہ شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ [6] اللہ غنی کے پیارے نبی مکّی مَدَنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :  فحش گوئی سخت دِلی سے ہے اور سخت دلی آگ میں ہے۔ [7] حکیم الاُمت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کےتحت فرماتے ہیں :  یعنی جوشخص زَبان کا بےباک ہوکہ ہر بُری بھلی بات بے دھڑک منہ سےنکال دے تو سمجھ لو کہ اس کا دل سخت ہے اس میں حیا نہیں۔  سختی وہ درخت ہے جس کی جڑ انسان کے دل میں ہےاوراس کی شاخ دوزخ میں۔  ایسے بے دھڑک انسان کا انجام یہ ہو تا ہے کہ وہ اللہ رسول کی بارگاہ میں بھی بے ادب ہو کر کافر ہو جا تا ہے۔ [8]

(2)زیادہ ہنسنا بھی دل کی سختی کا سبب ہےچنانچہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےارشادفرمایا : زیادہ مت ہنسو! کیونکہ زیادہ ہنسنا دِل کو مُردہ (یعنی سخت) کردیتاہے۔ [9]رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے زیادہ ہنسنے کا نقصان بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا :  زیادہ ہنسنے سے بچتے رہو کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا اور چہرے کے نورکو ختم کردیتا ہے۔ [10]

(3)پیٹ بھر کرکھانا بھی دل کی سختی کا سبب ہےچنانچہ حضرت بشر بن حارث رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :  دو عادتیں دل کو سخت کردیتی ہیں زیادہ باتیں کرنا اور زیادہ کھانا۔  [11]

(4)گناہوں کی کثرت بھی دل سخت ہونے کاسبب ہے چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے :  مؤمن جب گناہ کرتاہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ بن جاتاہے پھر اگر وہ توبہ کرے اور (گناہ سے) الگ ہو جائے اور بخشش چاہے تو اس کا دل صاف کر دیا جاتاہے اوراگر (توبہ نہ کرے بلکہ) گناہوں میں زیادتی کا مرتکب ہو تو وہ نکتہ بھی زیادہ ہوجاتا ہے۔ [12]حضرت سَیِّدُنا امام ابنِ حجر ہیتمی شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : وہ سیاہ نکتہ پورے دل کو ڈھانپ لیتا ہے اور یہ وہی زنگ ہے جسے اللہ پاک نے اپنی کتاب میں اس طرح ذکر فرمایا ہے : كَلَّا بَلْٚ- رَانَ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ(۱۴) ترجَمۂ کنزُالایمان : کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں نے۔ [13] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دل کی سختی کے چند علاج : رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دل کی سختی کےجوعلاج عطافرمائےہیں ،  ان میں سے چند یہ ہیں :

 (1)تلاوتِ قراٰن اورموت کی یاد بھی دل کی سختی دور کرنے کا بہترین ذریعہ ہے چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ ہے :  دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے کو پانی پہنچنے سے زنگ لگ جاتا ہے۔  عرض کی گئی :  یارسولَ اللہ!اس کی صفائی کس چیزسے ہوگی ؟ فرمایا :  موت کی بکثرت یاد اور تلاوتِ قراٰن سے۔  [14]

(2)غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ نے بعض بزرگوں کےحوالے سے بیان فرمایا ہے :  تمام خیر(اِن) دو کلموں میں ہے :  (1)حکمِ الہٰی کی تعظیم (2)اللہ پاک کی مخلوق پر شفقت۔  جو اللہ کےحکم کی تعظیم نہ کرے اورنہ اللہ کی مخلوق پر شفقت کرے تو ا یسا شخص اللہ (کی رحمت) سے دور ہے۔ [15] اللہ پاک کی مخلوق پرشفقت و مہربانی کے بہت سارے طریقے ہیں جن میں سے ایک مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی ہے اور یہ اللہ پاک کی رحمت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے چنانچہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےفرمایا :  رحمتِ الٰہی کو واجب کر دینےوالی چیزوں میں سےمسکین مسلمانوں کو کھانا کھلانا ہے۔  [16]

(3)مخلوق پرشفقت و مہربانی میں سےایک یہ بھی ہے کہ یتیموں کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یتیموں سے حسن سلوک کو  بہترین گھر کی نشانی اور اِن کے ساتھ بدسلوکی کو بدترین گھر کی نشانی قراردیا ہے چنانچہ آپ نے ارشادفرمایا : مسلمانوں میں بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہواور اس کے ساتھ اچھاسلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم ہو اور اس کےساتھ براسلوک کیا جاتا ہو۔ [17]

رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی اہمیت یوں بھی واضح فرمائی کہ اُن کے سرپر شفقت سےہاتھ پھیرنے کو دل کی سختی جیسی بڑی بیماری دور کرنے کا سبب  بھی قرار دیا اور اس انداز سے اُ ن کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والے کے لئے اجرو ثواب بھی بیان فرمایا چنانچہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے : جس نےصرف اللہ پاک

کی رضاکے لئےیتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا تو جتنے بالوں پر اُس کا ہاتھ گُزرا ہر بال کے بدلے اسے نیکیاں ملیں گی۔ [18]

اللہ کریم ہمارے دلوں کو نرمی کی نعمت سے نوازے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ  النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ کراچی



[1] مسند احمد ، 13 / 21 ، حدیث : 7576

[2] پ30 ، البلد : 14تا 16

[3] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 583

[4] صراط الجنان ، 4 / 370

[5] حلیۃ الاولیاء ، 6 / 313 ، رقم : 8747

[6] ترمذی ، 4 / 184 ، حدیث : 2419

[7] ترمذی ، 3 / 406 ، حدیث : 2016

[8] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 641

[9] ابنِ ماجہ ، 4 / 465 ، حدیث : 4193

[10] التر غیب والتر ہیب ، 3 / 340 ، حدیث : 27

[11] حلیۃ الاولیاء ، 8 / 392 ، رقم : 12637

[12] ابن ماجہ ، 4 / 488 ، حدیث : 4244

[13] پ30 ، المُطفّفین : 14 ، الزواجر ، 1 / 26

[14] شعب الایمان للبیہقی ، 2 / 352 ، حدیث : 2014

[15] الفتح الربانی ، 89

[16] الترغیب و الترہیب ، 2 / 35 ، حدیث : 9

[17] ابن ماجہ ، 4 / 193 ، حدیث : 3679

[18] مسند احمد ، 8 / 272 ، حدیث : 22215


Share