Book Name:Ghaus e Pak ka Bachpan
دیئے،والِدۂ ماجِدہ نے میرے چالیس(40) دِینار میری گُدڑی میں سِی دِیئے اور مجھے بغداد جانے کی اِجازت عِنایت فرما دی۔اُنہوں نے مجھے ہر حال میں راسْت گوئی اور سچّائی کو اپنانے کی تاکید فرمائی اور جِیْلان کے باہر تک مجھے اَلْوَدَاعْ کہنے کے لئے تَشْرِیْف لائیں اور فرمایا:”اے میرے پیارے بیٹے! میں تجھے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رِضا اور خُوشْنُودی کی خاطِر اپنے پاس سے جُدا کرتی ہوں اور اب مجھے تُمہارا مُنہ قِیامت کو ہی دیکھنا نصیب ہوگا۔“ (بہجۃالاسرار،ذکرطریقہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ ،ص۱۶۷)
حضرتِ سَیِّدُنا شَیْخ عَبْدُ الْقادِر جِیْلانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْغَنِی کے عِلْمِ دِین حاصِل کرنے کا انداز بڑا نِرالا تھا ، آپ کے شوقِ عِلْمِ دِین کا اندازہ اِس بات سے لگایئے کہ آپ فرماتے ہیں :میں اپنے طالِبِ عِلْمی کے زمانے میں اَسَاتِذہ سے سَبَق لے کر جنگل کی طرف نِکل جایا کرتا تھا،پھر بَیابانوں اورخَرابوں (وِیرانوں )میں دن ہو یا رات ،آندھی ہو یا مُوسْلادھار بارش، گرمی ہو یا سردی اپنا مُطالَعہ جاری رکھتا تھا، اُس وقت میں اپنے سر پر ایک چھوٹا سا عِمامہ باندھتا اور مَعْمُولی تَرکارِیاں کھا کر شِکَم (پیٹ)کی آگ سَرد کرتا، کبھی کبھی یہ تَرکارِیاں بھی ہاتھ نہ آتیں، کیونکہ بُھوک کے مارے ہوئے دوسرے فُقَراء بھی اِدھر کا رُخ کر لِیا کرتے تھے، ایسے مَواقِع پر مجھے شَرْم آتی تھی کہ میں دَرْویشوں کی حَق تَلَفی کروں ، مَجْبُوراً وہاں سے چلا جاتا اور اپنا مُطَالَعہ جاری رکھتا ،پھر نیند آتی تو خالی پیٹ ہی کنکریوں سے بھری ہوئی زمین پر سوجاتا) قلائد الجواہر، ص۱۰ملخصاً)
آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنے اِسی زَمانۂ طالِبِ عِلْمی کے بارے میں فرماتے ہیں :میں زمانے کی جِن سختیوں سے دوچار ہُوا ،اُنہیں برداشْت کرتے کرتے پہاڑ بھی پَھٹ جاتا، یہ تو اُس ذاتِ بے نیاز (عَزَّ وَجَلَّ) کا کام ہے کہ میں بَہ عافِـیَّت اُن خار زاروں (کانٹے دار جنگلوں )سے گُزر گیا ۔ (قلائد الجواہر،ص۱۰)