Book Name:Achay Mahol ki Barkatain Ma Dosti ki Sharait
1. عُلَماء،انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے وارِث ہیں، بیشک انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام دِرہَم و دِینار کا وارِث نہیں بناتے بلکہ وہ تو علم کا وارِث بناتے ہیں،لہٰذا جس نےعلم حاصِل کیا اس نے اپنا حصّہ لے لیا اور عالمِ دِین کی موت ایک ایسی آفت ہے جس کا اِ زالہ نہیں ہوسکتا اور ایک ایسا خَلا ہے جسے پُر نہیں کیا جاسکتا (گویا کہ ) وہ ایک ستارہ تھا جو ماند پڑ گیا، ایک قبیلے کی موت ایک عالِم کی موت کے مُقابلے میں نہایت معمولی ہے۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اِن فرامین کو سُن کر یقیناً ہم سب کے دلوں میں عُلمائے کِرام کے مقام ومرتبے اور ان کی مَحَبَّت میں مزید اضافہ ہوا ہوگا۔ افسوس! آج ہر شخص اپنی اولاد کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانے کی خواہش تو رکھتا ہے مگرانہیں عالمِ دِین بنانے کی خواہش رکھنے والے بہت کم افرادہیں ، لوگ اولاد کو اپنی دُنیوی زندگی کا سہارا بنانے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر روزِ محشر کی اُن ہولناکیوں کے بارے میں نہیں سوچتے جب آدمی کی حالت یہ ہوگی، جیسا کہ پارہ 30، سُوۡرَۂ عَبَسَ، آیت نمبر 34 تا 36 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِۙ(۳۴)وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِۙ(۳۵)وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِؕ(۳۶) (پ۳۰، عبس: ۳۴۔۳۶)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان :اس دن آدمی بھاگے گا اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور جورُو(بیوی)اور بیٹوں سے۔
(یعنی)اِن میں سے کسی کی طرف مُلْتَـفِتْ (مُتَوَجِّہ) نہ ہوگا ، اپنی ہی پڑی ہوگی ۔(خزائن العرفان، پ ۳۰، عبس، تحت الآیۃ: ۳۶)لیکن اس بے کَسِی کے عالَم میں عُلمائے کِرام کی شان یہ ہوگی کہ وہ لوگوں کی شَفاعَت کررہے ہوں گے ۔ یاد رہے کہ اگرچہ اہلِ دُنیا، عُلماءِ دِین کو اُن کے سادہ لباس اور مال و دولت کی کمی کے سبب حَقِیر سمجھیں لیکن عنقریب وہ اُس وقت علماء کا مرتبہ جان لیں گے جب میدانِ محشر میں اہلِ دُنیا اپنا