Book Name:Aashiqon ka Safr e Madina
لہٰذا جس کُتّے کو اَمِیْرِ مِلَّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے مُرید نے ڈھیلا (ڈھے۔لا)مارا تھا وہ بھی کوئی عام کُتّا نہ تھا بلکہ اُسے حبیبِ کِبْرِیا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیارے شہر مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ سے نِسبت حاصِل تھی وہ دِیارِ مَحبوب کے گلی کُوچوں سے تَعَلُّق رکھنے والا تھا،اِسی وجہ سے اَمِیْرِ مِلَّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اُس کتے کا اَدَب و اِحتِرام بَجالائے اور اُس سے مُعافی کے طَلَبْگار ہوئے،بَہر حال یہ عشق و مَحَبَّت کی باتیں ہیں اور عشق و مَحَبَّت والے ہی اِنہیں سمجھ سکتے ہیں۔
آپ کی گلیوں کے کُتّوں پہ تَصَدُّق جاؤں کہ مدینے کے وہ کُوچوں میں پِھرا کرتے ہیں
آپ کی گلیوں کے کُتّے مجھ سے تو اچّھے رہے ہے سُکوں اُن کو مُیَسَّر سبز گُنبد دیکھ کر
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اے دَرْد تیری جگہ تو میرے دل میں ہے
مُفَسِّرِِ شہیر،حکیمُ الاُمَّت حضر ت مفتی اَحمد یار خانرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے ۱۳۹۰ ھ میں حج و زِیارَت کی سَعادَت حاصِل کی،اِس ضِمْن میں سفرِِِ مدینہ کاایک اِیمان اَفروز واقِعہ بَیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:میں مَدِیْنَۂ مُنَوَّرَہ زَادَہَا اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً میں پِھسَل کر گِر گیا، داہنے ہاتھ کی کَلائی کی ہڈِّی ٹُوٹ گئی، دَرْد زِیادَہ ہوا تو میں نے اُسے بوسَہ دے کر کہا: اے مدینے کے درد! تیری جگہ میرے دل میں ہے تُو تو مجھے یار کے دروازے سے مِلا ہے۔
تِرا دَرْد میرا دَرماں تِرا غم مِری خوشی ہے |
|
مجھے دَرْد دینے والے تری بندہ پَروَرِی ہے |
(فرماتے ہیں کہ)دَرْد
تو اُسی وَقْت سے غائب ہو گیا مگر ہاتھ کام نہیں کرتا تھا،سترہ(17)دن کے بعد مُسْتَشْفٰی مَلِک یعنی
شاہی اَسْپتال میں ایکسرے لِیا تو ہڈّی کے دو ٹکڑے آئے ،جن میں قدْرے فاصِلہ ہے
مگر ہم نے عِلاج نہیں کرایا ،پھر
آہِستہ آہِستہ ہاتھ کام بھی کرنے لگا، مَدِیْنَۂ
مُنَوَّرَہ زَادَہَا
اللّٰہُ شَرَفًاوَّتَعْظِیْماً کے اُس اَسْپتال کے ڈاکٹرمحمد اسمٰعیل نے کہا کہ یہ خاص کَرِشْمَہ
ہوا ہے کہ یہ ہاتھ طِبّی لِحاظ سے حَرَکت بھی