Book Name:Farooq e Azam ka Ishq e Rasool
تیری سُنَّتوں پہ چل کر میری رُوح جب نکل کر چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے
(وسائلِ بخشش،ص428)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!مَحَبَّت کا تَقاضا یہ نہیں کہ جس سے مَحَبَّت کی جائے توفقط اسی کی ذات میں کھو کر اپنی مَحَبَّت کو مَحْدُود رکھا جائے بلکہ مُحِب تو اپنے محبوب سے مَنْسُوب ہر شے سے پیار کرتا ہے،اس کے اَہْل وعِیال ،اَعِزَّہ واَقْرِبااور دوست واَحْباب سے بھی مَحَبَّت کرتاہے ۔چُنانچہ
حسنینِ کریمین کو اپنی اَوْلاد پر ترجیح دی:
حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ
بن عباس رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ جب خِلافتِ فارُوقی میں اللہتَعالیٰ نےصحابۂ کرام عَلَیْہِمُ
الرِّضْوَان کے
ہاتھ پر مَدائن فَتْح کیا اور مالِ غنیمت مدینۂ مُنوَّرہ میں آیا تو اَمِیْرُ الْمُؤمنین
حضرت سَیِّدُنا عُمر فارُوقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
مسجدِنَبَوِی میں چَٹائیاں بچھوائیں اور سارا مالِ غنیمت ان پر ڈھیر کروادیا۔
صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان مال لینے
جَمْع ہوگئے ۔سب سے پہلے حضرت سَیِّدُنا امام حسن رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کھڑے ہوئے
اور کہنے لگے: ’’اے اَمِیْرُ الْمُومنین !اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جو مُسلمانوں کو مال عطافرمایا ہے،اس میں سے میرا حِصّہ
مجھے عَطا فرمادیں۔‘‘آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے
فرمایا: آپ کے لیے بڑی پذیرائی اور کرامت (عزّت) ہے۔‘‘ساتھ
ہی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک
ہزار(1000) دِرْہم انہیں دے دئیے۔ اُنہوں نے اپنا حِصّہ لیا اور چلے
گئے،ان کے بعد حضرت سَیِّدُنا امام حُسین رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کھڑے ہو کر اپنا حِصّہ مانگا،آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہنے فرمایا: آپ کے لیے بڑی پذیرائی اور کرامت (عزّت) ہے۔‘‘ساتھ ہی آپ رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ایک ہزار(1000)دِرْہم
انہیں بھی دے دیئے،اس کے بعد آپ رَضِیَ اللّٰہُ
تَعَالٰی عَنْہُکے بیٹے حضرت سَیِّدُناعبدُاللہبن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی
عَنْہُ اُٹھے اور اپنا حصہ مانگا۔