Hilm-e-Mustafa صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

Book Name:Hilm-e-Mustafa صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اورقُعَیْقِعان)دونوں پہاڑوں کو ان کفار پر اُلٹ دُوں تو میں اُلٹ دیتاہوں۔ یہ سن کر حضور رحمتِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جواب دیا کہ نہیں، بلکہ میں امید کرتا ہوں کہ اللہ  تعالیٰ ان کی نسلوں سے اپنے ایسے بندوں کو پیدا فرمائے گا،جو صرف اللہتعالیٰ کی ہی عبادت کریں گےاورشرک نہیں کریں گے۔)صحیح البخاری ، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم اٰمین...الخ، الحدیث:۳۲۳۱، ج۲، ص۳۸۶)

جاؤ!تم سب آزاد ہو

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!دیکھا آپ نے اتنا بُراسلوک کرنے کے باوجود،سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نہ توان سے بدلہ لیا اور نہ ہی بددُعاکی۔یُوں توحُضُورعَلَیْہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پُوری حَیاتِ طیّبہ اسی طرح  حِلْم و کرم کے عظیمُ الشَّان واقعات سے سَجی ہوئی ہے۔مگرفتحِ  مکہ کے موقع پرجس کمالِ حلم وشَفْقت  کا مُظاہَرہ فرمایا، اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔مَنْقول ہے کہ جس دن مکہ فتح ہوا اور کُفْر و شیطان اپنے چیلوں سمیت ذَلیل و رُسوا ہوئے ، تب حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَہلِ مکہ سے دَرْیافت فرمایا:اے قُریش! تمہارا کیا خیال ہے، میں تم سے کیسا سُلُوک کرنے والا ہوں؟ اُنہوں نےعرض کی: نَظُنُّ خَیْراً،یعنی ہم حُضُور سے خیر ہی کی تَوقُّع رکھتے ہیں، نَبِیٌّ کَرِیْمٌ وَ اَخٌ کَرِیْمُ وَ ابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ وَ قَدْ قُدِرْتَ، کیونکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کریم نبی ہیں، کَرِیْمُ الْنَفْس بھائی ہیں اور ہمارے کریم و مہربان بھائی کے فرزند ہیں اور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے آپ کو ہم پر قُدرت عطا فرمائی ہے،تو رحمتِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرْشاد فرمایا: آج میں تمہیں وہی بات کہتا ہوں، جو میرے بھائی یُوسف نے اپنے بھائیوں کے بارے میں کہی تھی (پھر سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے یہ آیتِ مُبارکہ تلاوت فرمائی) لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(۹۲) (تَرْجَمَۂ کنزالایمان: آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں مُعاف کرے اور وہ سب مہربانو ں سے بڑھ کر مہربان ہے۔۱۳،یوسف۹۲)) (اور فرمایا:) جاؤ تم سب آزاد ہو۔ (سبل الھدی والرشاد ،۵/۲۴۲)