Book Name:Hilm-e-Mustafa صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
(پارہ:۲۹، القلم:۴) شان کی ہے۔
تاجدارِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اِرْشادفرمایا:بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاق، یعنی مجھے اچھے اَخْلاق کی تکمیل کےلیے مَبعُوث کِیا گیا ہے۔(نوادر الاصول للحکیم الترمذی، ۲/۱۱۰۷،حدیث:۱۴۲۵) توجن کی بِعْثَت (بھیجنے)کامَقْصد ہی اچھے اَخْلاق سکھانا ہو، تو خُود ان کے اَخْلاقِ عظیمہ کا عالَم کیا ہوگا۔
حِلْم کی تعریف اور اس کی اَہَمیّت:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پاکیزہ اَوْصاف میں سے ایک پیاری صِفَت ’’حلم‘‘بھی ہے۔حلم کامعنیٰ ہے:اپنی طبیعت سے غُصّے کو ضبط کرنا۔(حاشیہ سیرتِ رسولِ عربی:۲۹۳) یعنی غُصّہ آئے تو اسے پی جانا حلم کہلاتا ہے۔یاد رکھئے!غُصّہ اِنْسانی فطرت میں شامل ہے،یہ ایک غَیْر اِخْتیاری اَمْر ہے، اس میں ہمارا کوئی قُصُورنہیں۔لیکن غُصّے سے بے قابُو ہوجانا بُرافعل ہے۔ لہٰذا جب بھی غُصّہ آئے تو حلم کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے اسے دَبانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ غُصّہ پینے اور بُردباری اِخْتیار کرنے کے بے شُمار فَضائل ہیں۔اس ضِمْن میں دو(2) فرامینِ مُصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَسُنئے۔
(1)تم میں سب سے زِیادہ طاقتور وہ ہے، جو غُصّہ کے وَقْت خُود پرقابُوپالے اورسب سے زِیادہ بُردباروہ ہےجوطاقت کےباوُجُودمُعاف کردے۔(کنزالعمال ،کتاب الاخلاق ، الباب الثانی فی الاخلاق والافعال المذمومة،۳/ ۲۰۷، حدیث :۷۶۹۴)
(2)اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ہاں عزّت وبُزرگی چاہو۔“ صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی:”وہ کیسے؟“اِرْشادفرمایا:”جو تم سے قَطع تعلُّقی کرے ،اس سے صِلَہ رِحْمی کرو، جوتمہیں محروم کرے ،اسے عَطا کرواور جو تم سے جَہالت سے پیش آئے،تم اس کےساتھ بُردباری اِخْتیار کرو۔”( موسوعۃالامام ابن ابی الدنیا ، کتاب الحلم،۲/ ۲۲، حدیث :۴)