Book Name:Siddiq-e-Akbar رضی اللہ تعالٰی عنہ ka ishq-e-Rasool
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
عشقِ صدیقِ اکبر سے ملنے والےمدنی پھول!
شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ فرماتے ہیں:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! عاشقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی عشق ومَحَبَّت بھری مُبارک زِندگی سے ہمیں یہ بھی درس ملتا ہے کہ ہماری آہیں اور سِسکیاں دُنیا کی خاطر نہ ہوں، محبّتِ دُنیا میں آنسو نہ بہیں، دُنْیوی جاہ وحشمت(یعنی شان و شوکت) کے لئے سینے میں کَسَک پیدانہ ہو، بلکہ ہمارے دل کی حسرت، حُبِِّ نبی ہو، آنسو یادِ مُصطفےٰ میں بہیں، دُنیا کے دیوانے نہیں بلکہ شمعِ رسالت کے پروانے بنیں، اُنہی کی پسند پر اپنی پسند قُربان کریں اوریہی خواہش ہو کہ کاش! میرا مال، میری جان محبوبِِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی آن پر قُربان ہو جائے۔لیکن افسوس! صد افسوس!آج کے مُسلمانوں کی اکثریت شاہِ ابرار، دو عالم کے مالِک ومختارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اُسوۂ حسنہ کو اپنا مِعْیار بنانے کے بجائے ،اَغْیار کے شعاراور فیشن پر نثار ہوکر ذلیل و خوار ہوتی جارہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جولوگ اپنے والدین سے مَحَبَّت کرتے ہیں، وہ اُن کا دل نہیں دُکھاتے، جنہیں اپنے بچے سے مَحَبَّت ہوتی ہے وہ اُسے ناراض نہیں ہونے دیتے،کوئی بھی اپنے دوست کو غمزدہ دیکھنا گوارا نہیں کرتا، کیونکہ جس سے مَحَبَّت ہوتی ہے، اُسے رنجیدہ نہیں کیاجاتا، مگر آہ!آج کے اکثر مُسَلمان جو کہ عشقِ رسول کے دعویدار ہیں، مگر اُن کے کام محبوب رَبُّ ا لاَنام صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شاد (خُوش)کرنے والے نہیں ، رسولِ ذی وقار،شہنشاہِ ابرارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں:’’جُعِلَتْ قُـرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر، زیادہ بن علاقۃ عن المغیرۃ، الحدیث:۱۰۱۲، ج۲۰، ص۴۲۰)وہ کیسے عاشقِ رسول ہیں جو کہ نماز سے جی چُرا کر،نماز جان بُوجھ کرقضا کر کے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ پُرانوار کے لئے تکلیف و آزار کاسبب بنتے ہیں۔یہ کون سی مَحَبَّت اور کیسا عشق ہے کہ رسولِ رفیعُ الشّان، مدینے کے سلطان صَلَّی