Book Name:Imam e Ahle Sunnat ka Shauq e Ilm e deen
سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتے ہیں۔
فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ:آدَمی کے اسلام کی خُوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کام چھوڑ دے، جواُسےنفع نہ دے۔(سُنَنُ التِّرْمِذِیّ ج۴ ص۱۴۲ حديث۲۳۲۴)جبکہ ہمارےبزرگانِ دین ہمیشہ ایسے فُضُول کاموں سے کنارہ کَشی اختیار فرمایا کرتے ،اُنہوں نے تبلیغ واشاعتِ علم کیلئے اپنی صلاحیتوں کاصحیح استعمال کیا توکوئی مُفسر بنا توکوئی مُحدِّث،کوئی فقیہ بنا تو کوئی طبیِبِ حاذق(ماہر طبیب/Specialist) الغرض ہرایک اپنی اپنی صلاحیتوں اور علمی کاوشوں کے سبب آج بھی لاکھوں دِلوں پر راج کررہے ہیں ۔ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی صلاحیّت وقابلیت کو فُضُول کاموں میں برباد کرنے کے بجائے اَسلاف کے نقشِ قدم پر چلتےہوئے زندگی بسرکریں ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!اعلیٰ حضرت،امام اہلسنت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی شخصیت ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے کہ آپ نے عِلْمِ دِیْن سے مَحَبَّت اور اس کی اشاعت کے جذبے کے تحت انتہائی مَشقَّت کے باوجود بھی اُمّتِ مسلمہ کو عِلْمِ دِیْن سے سیراب فرمایا،چنانچہ منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جب دوسری بارحج کے اِرادے سےعرب شریف گئے، جب جہاز کے ذریعے جدہ پہنچے تو آپ کو بخار ہوگیا، تین (3)روز جدہ میں بخار کی حالت میں گزرے، حج کے دنوں میں کچھ اِفاقہ ہوا مگر حج سے فراغت کے بعد پھر بخار ہوگیا(ملفوظات:۱۸۳، بتغیر)ایسے حالات میں مکۂ مکرمہ کے سب سے بڑے عالمِ دین ،سابق قاضیِ مکہ حضرت مولانا صالح کمال رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے علمِ غیبِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےمُتَعَلِّق اعلی حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کوکچھ سُوالات پیش کیے اور کہا کہ اس کا جواب مطلوب ہے۔باوجود یہ کہ اعلیٰ حضرترَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ علیل (یعنی بیمار)تھے، مسافر تھے، سفرِ حج اور مراحلِ حج طے کرنے کے سبب تھکن کے علاوہ دیگر کئی مصروفیات بھی تھیں مگر اِرْشاد فرمایا: قلم دوات لائیے! مولانا صالح کمال رَحْمَۃُ