Book Name:Sadr-ush-Shari'ah ki Deni Khidmaat

تصور کرلیا تھا۔مرشِدِ کریم کی اُلفت میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  اس قدر فنا ہوچکے تھے کہ اگرکوئی آپ کے علمی کارناموں اور صلاحیتوں کی تعریف کردیتا تو خوشی سے پھُولے سمانے اور ان کارناموں اور صلاحیتوں کو اپنا کمال تصور کرنے کے بجائے اپنے پیر و  مرشِد یعنی  اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کا فضل و کرم سمجھتے تھے چنانچہ

آستانہ مُرشد سے وفا

        ایک مرتبہ کسی صاحِب نے تاجدارِ اہلسنّت، مفتیِ اعظم ہند،شہزادۂ اعلیٰ حضرت علامہ مولانا مصطفیٰ رضاخان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کے سامنے صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا تذکرہ فرمایاتومفتیِ اعظم رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی چشمانِ کرم سے آنسو بہنے لگے اور فرمایا کہ صدرُ الشَّریعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنا کوئی گھر نہیں بنایا بریلی ہی کو اپنا گھر سمجھا۔ وہ صاحبِ اثر بھی تھے اور کثیرُ التَّعْداد طَلَبہ کے اُستاذبھی، وہ چاہتے تو بآسانی کوئی ذاتی دار العلوم ایسا کھول لیتے جس پر وہ یکہ و تنہا(یعنی بالکل اکیلے)قابض رہتے مگر ان کے خلوص نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ چنانچہ دار العلوم مُعِیْنِیَہ عُثمانیہ (اجمیر شریف) میں وہاں کے صدرُ المدَرِّسین ہو کر جب آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  پہنچے اور وہاں کے لوگ آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے اندازِ تدریس(یعنی پڑھانے کے انداز) سے بَہُت متأثر ہوئے تو آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کے سامنے اس کا ذِکر آیا کہ آپ کی تعلیم بہت کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے یہ مرکزی دارالعلوم سر بلند ہوتا جارہا ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:”یہ مجھ پر اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا فضل وکرم ہے۔“(تذکرۂ صدرُ الشریعہ،ص۲۴-۲۳)

احمد رضا نے جس کو دعا میں کہا میرا

 

امجد یقیناً مجد میں پکا ہے آج بھی

ثابت کیا ہے صدرُ الشّریعہ نے بالیقین

 

احمد رضا کی شمع فروزاں ہے آج بھی

(آدابِ مرشدِ کامل،ص۲۳۲)