Book Name:Hubb-e-Jaah Ki Mozammat
کی جانب سے پذیرائی ہی ہمیں محبوب و پسند ہے ، بلکہ ہمارا حال تو یہ ہے کہ اگر ہمیں کوئی ذمہ داری کوئی بڑا منصب نہ ملے تو ہم ناراض ہوجاتے ہیں جبکہ ہمارے اسلام بزرگانِ دین کا طرزِ زندگی اور ان کی سوچ کچھ اور ہی ہوتی تھی انہیں تو اگر کوئی منصب مل جاتا تو وہ فکر مند ہوجاتے تھے جیسا کہ
خلیفہ سلیمان نے انتقال سے قبل ایک وصیت نامہ لکھا اور اس میں اپنے جانشین کا نام لکھ کر اسے مہر لگا کر بند کردیا۔ اس کے انتقال کے بعدجب اس سر بمہر وصیت نامے کو کھولا گیا تو اس میں(غیر متوقع طور پر) حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا نام نکلا۔ یہ دیکھ کر آپ حیران و ششدر رہ گئے اور فرمایا : میں نے اللہ کریم سے کبھی اس منصب کے لئے دعا نہیں کی تھی ۔ (تاریخ الخلفاء ، ص ۱۸۵)
حضرت حماد رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کر تے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خلیفہ مقرر ہو ئے تو رونے لگے ۔ جب میں نے رونے کی وجہ دریافت کی تو فرمایا : اے حماد !مجھے اس ذمہ داری سے بڑا خوف آتا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا : آپ کے دل میں مال و دولت کی کتنی محبت ہے ؟ ارشاد فرمایا : بالکل نہیں۔ تو میں نے عرض کی : آپ خوف زدہ نہ ہوں ، اللہ پاک آپ کی مدد فرمائے گا۔ (تاریخ الخلفاء ، ص ۱۸۵)
پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا طرزِ عمل ملاحظہ فرمایا کہ خلافت کا اعلیٰ ترین منصب ملنے پر خوش ہونے کی بجائے احساس ِ ذمہ داری کی وجہ سے کس قدرپریشان ہوگئے اور ایک ہم ہیں کہ اگر ہمارا نام نگرانی یا کسی ذمہ داری یا بیان کرنے یادعا