Book Name:Fazilat Ka Mayar Taqwa Hai
نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا حق دار ہو جیسے کُفْر وشرک ، کبیرہ گُناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا ، حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اور فرائض کو ادا کرنا وغیرہ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیرا ربِّ کریم تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔ (تفسیرخازن ، پ۱ ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : ۲ ، ۱ / ۲۲ملخصاً)
حضرت سُفیان ثوری رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں : پرہیز گاروں کو مُتَّـقی اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی چیزوں سے بھی بچتے ہیں جن سے بچنا عُموماً دُشوار ہوتا ہے۔ ( در منثور ، پ۱ ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : ۲ ، ۱ / ۶۱)
کسی شاعر کا کہنا ہے : جو شخص اللہ پاک سے ڈرتا ہے وہی فائدے والی چیز حاصل کرتا ہے۔ قبر میں انسان کے ساتھ صرف تقویٰ اور نیک اعمال ہی جاتے ہیں۔ (منہاج العابدین ، ص۱۵۰ملخصاً)
آئیے!اب تقوے کی قسموں سے متعلق سنتے ہیں چنانچہ
اعلیٰ حضرت ، امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات(7)قسمیں ہیں : (1)کفر سے بچنا ، (2)بدمذہبی سے بچنا ، (3)کبیرہ گناہ سے بچنا ، (4) صغیرہ گناہ سے بچنا ، (5)شبہات(مشکوک چیزوں)سے پرہیز کرنا ، (6)نفسانی خواہشات سے بچنا ، (7) اللہ پاک سے دورلے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا ، اور قرآنِ عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔ (خزائن العرفان ، پ۱ ، البقرۃ ، تحت الآیۃ : ۲ ، ص ۴ملخصاً)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!عُموماً بعض لوگوں میں یہ بُری عادت ہوتی ہے کہ وہ مُعاشرے میں اعلیٰ سمجھے جانے والے پیشے اپنانے والوں کے خُوب گُن گاتے ، ان کی تعریفوں کے پُل