Imam e Hussain Ki Seerat

Book Name:Imam e Hussain Ki Seerat

کرتا ہے تو بیشک دُنیا دار تو کسی بھی نیک یا بَد سے محبّت کر لیتا ہے، ہاں! جو ہم سے صِرْف و صِرْف اللہ پاک کی رضا کی خاطِر محبّت کرتا ہے، وہ اور ہم قیامت کے دِن ایسے ایک ساتھ ہوں گے، یہ کہہ کر آپ نے شہادت کی اور اس کے ساتھ والی انگلی (Finger) کو مِلا دیا۔([1]) 

محبّتِ حُسَین کی برکت سے مغفرت ہو گئی

علّامہ اِبْنِ جوزی رحمۃُاللہ علیہ لکھتے ہیں: ایک مرتبہ حضرت عَمْرو بن لَیْث رحمۃُاللہ علیہ کے سامنے ان کی فوج جمع کی گئی، آپ نے اپنی فوج کی کَثْرت دیکھی تو دِل ہی دِل میں سوچا: اے کاش! امامِ حُسَیْن رَضِیَ اللہُ عنہ کی شہادت کے وقت کربلا میں موجود ہوتا، میرے پاس اتنی ہی فوج (Army)ہوتی تو میں اپنی جان، اپنی شان و شوکت اور ساری فوج اُن کے قدموں پر قربان(Sacrifice) کر دیتا۔

اُس زمانے کے کسی ولیُّ اللہ کو خواب میں غیبوں کی خبر رکھنے والے نبی، رسولِ ہاشمی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  کی زیارت ہوئی، آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا: عَمْرو بن لیث سے کہہ دو کہ اس کے دِل   میں جو خیال آیا ہے، ہمیں اس کی خبر ہے اور ہم نے اس کے اِرادے کو قبول کر لیا ہے، اللہ پاک اسے اس ارادے پر بڑا اَجْر عطا فرمائے۔([2]) 

کتابوں میں لکھا ہے: حضرت عَمْرو بن لَیْث رحمۃُاللہ علیہ کی وفات (Death)کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھ کر پوچھا: اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ کہا: وہی ایک خیال جو محبّتِ امامِ حُسَیْن رَضِیَ اللہُ عنہ کے سبب میرے دِل میں آیا تھا، اسی کی


 

 



[1]...مقتل الحسین لطبرانی،صفحہ:76،رقم:115۔

[2]...بستان الواعظین،مجلس فی فضل یوم عاشوراء،عمر و بن لیث،صفحہ:213 ملتقطًا۔