Book Name:Qaroon Ko Naseehat
خادِموں کے ذریعے خیمے اور ضرورت کا سامان پہلے سے مَنْزِل پر پہنچا دیا جاتا تھا تاکہ وہاں پہنچنے تک خیمے تیار ہوں)، چنانچہ خلیفہ سلیمان بن عبد الملک اور دیگر لوگوں نے اپنے خیمے آگے بھجوا دئیے مگر حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنا سامان اور خیمہ پہلے سے آگے نہ بھجوایا۔ جب مَنْزِل پر پہنچے تو ہر شخص اپنے خیمے میں چلا گیا لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کہیں نَظَر نہیں آرہے تھے،خلیفہ نے خادِموں سے کہا:جاؤ! اُنہیں تلاش کرو...!! تلاش کیا گیا تو آپ اس حال میں ملے کہ ایک دَرْخَت کے نیچے بیٹھے زار و قطار رو رہے ہیں۔خلیفہ کو اِطلاع دی گئی، اس نے آپ رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ کو بُلا کر پوچھا: اے اَبُو حَفْص (عمر بن عبد العزیز)! آپ کیوں رو رہے ہیں؟ حضرت عمر بن عبد العزیز رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فِکْرِ آخرت میں ڈُوبا ہوا، سبق آموز جواب دیا، فرمایا: مجھے قِیامت کا دِن یاد آ گیا۔ دیکھئے! (آپ سب نے خیمے پہلے سے بھیجے تھے، آپ آتے ہی اپنے اپنے خیمے میں چلے گئے مگر) میں نے گھر سے کوئی چیز آگے نہیں بھیجی تھی، اس لئے مجھے یہاں کچھ نہیں ملا، قِیامت میں بھی یہی حال ہو گا، جس نے جو کچھ آگے بھیجا ہو گا، اسے وہی کچھ ملے گا۔([1])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! واقعی عبرت کی بات ہے، اگر ہم اپنا سب کچھ دُنیا بنانے کے لئے ہی خرچ کرتے رہے، آخرت کے لئے کچھ بھی آگے نہ بھیجا تو دُنیا تو عنقریب ختم ہو جائے گی، ہم بھی فنا ہو جائیں گے، پِھر آخرت میں ہمارا کچھ نہیں ہو گا، تب ہم کیا کریں گے؟ پِھر بس حسرت سے یہی پُکاریں گے:
یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ لِحَیَاتِیْۚ(۲۴) (پارہ:30 ،اَلْفَجْر:24)
تَرجَمہ کَنْزُ الْعِرْفان:اے کاش کہ میں نے اپنی زندگی میں (کوئی نیکی) آگے بھیجی ہوتی۔