آخر درست کیا ہے؟

 “ تناسُخ یا آواگون “ اسلامی نقطہ نظر سے(قسط02)

آواگون پر کچھ سوالات اور جوابات

* مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

کچھ ماہرینِ نفسیات (Psychologists)کی طرف سے روح کے متعلق کئی دعوے سامنے آئے۔ وہ دعوے اور ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیں :

دعویٰ : ایک ماہرِ نفسیات ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ کائنات میں موجود ایک ماسٹر ا سپرٹس (Master Spirits) نے کسی مریضہ (patient) کے ذریعے ڈاکٹر کو بتایا کہ قدرت ، روح کو تعلیم اور ٹریننگ کے لئے دنیا میں بھجواتی ہے۔

جواب : کسی نفسیاتی ڈاکٹر کا بغیر کسی حقیقی مضبوط دلیل کے یہ دعویٰ ، بے اصل اور ناقابل قبول ہے۔ روح کے متعلق خالقِ کائنات کا فرمان ہے : )وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِؕ-قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵)( ترجمہ : اور تم سے روح کے متعلق پوچھتے ہیں۔ تم فرماؤ : روح میرے رب کے حکم سے ایک چیز ہے اور (اے لوگو!) تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔ (پ15 ، بنی اسرائیل : 85)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

روح کے متعلق جتنی معلومات ہیں ، اگر تو خود قرآن و حدیث سے ہیں تو سو فیصد معتبر ہیں اور اگر اولیاء کاملین کے مشاہدات و مکاشفات و الہامات سے ہیں تو ان کے ذریعے قرآن و حدیث والے یقین سے نچلے درجے کا علم حاصل ہوگا اور اگر عام لوگوں کے خوابوں اور کیفیتوں سے ہیں تو ان پر ایک گمان تو قائم ہوسکتا ہے ، یقین نہیں اور گمان بھی تب ہوسکتا ہے جبکہ قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو ، ورنہ ان کے مقابلے میں ہر شے مسترد (Rejected) ہے۔ اور اگر روح کے متعلق حاصل ہونے والی معلومات عام لوگوں یا نفسیات دانوں کے تجربات سے ہیں تو تجربے کی قطعیت ، حتمیت اور کثرت دیکھ کر کوئی نتیجہ نکالا جاسکتا ہے جبکہ آج تک کے عمومی تجربات بہت مبہم (Ambiguous) ہیں ، جن کی قطعیت ثابت نہیں اور ان تجربات کے حقیقی اسباب (real reasons) معلوم نہیں کہ وہاں روح کا معاملہ ہے یا دماغ کی قوت کا یا جنات و شیاطین کا۔

دعویٰ : نفسیات دان نے کہا : روحوں نے بتایا کہ عالم ارواح میں سات درجے ہیں ، ایک درجے کی روح جب تک اس درجے کی تعلیم مکمل نہیں کر لیتی یہ اس وقت تک بار بار پیدا ہوتی رہتی ہے اور جب اس کی ٹریننگ (Training) مکمل ہو جاتی ہے تو یہ اگلے درجے میں چلی جاتی ہے اور پھر اس درجے میں پیدا ہونے لگتی ہے اور جب وہ درجہ بھی مکمل ہو جاتا ہے تو یہ اگلے درجے  میں چلی جاتی ہے۔

جواب : یہ محض ایک دعویٰ ہے ، جس کی بنیاد کسی نفسیاتی مریض (psychiatric patient) یا مریضہ کے اپنے ہوش و حواس سے بیگانہ ہوکر کچھ بول دینے پر ہے۔

بَک رہا ہوں جُنُوں میں کیا کیا کچھ

کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

ایسے بے دلیل دعووں کو شاید ہی کوئی عقلمند قبول کرسکے۔ اگر کل کوئی شخص یہ دعویٰ کر دے کہ عالم ارواح کے پچیس درجے ہیں اور تین جنموں کے بعد ترقی کرکے آدمی اگلے درجے میں چلا جاتا ہے تو بتائیے! اس دعوے کے رد کی کیا دلیل ہوگی؟ لہٰذا نفسیاتی ڈاکٹر کا دعویٰ بلادلیل ہے جو معتبر نہیں۔

دعویٰ : روحوں نے بتایا : تم انسان ، روحانی تجربے نہیں کر رہے بلکہ روحیں انسانی تجربات کر رہی ہیں۔

جواب : یہ بھی دعویٰ ہی ہے جو قرآن و حدیث اور لاکھوں اولیاء کے کروڑوں تجربات کے خلاف ہے۔ قرآن مجید میں نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی معراج ، حضرت ابراہیم  علیہ السّلام  کے آسمان و زمین میں خدا کی بادشاہت کے مشاہدات ، حضرت موسیٰ  علیہ السّلام  کے کوہِ طور پر تجلی ربانی کا مشاہدہ کرنے کا تذکرہ ہے۔ یہ حقیقی واقعات جسمانی و روحانی دونوں طرح کے تجربات پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ سابقہ آسمانی کتابوں میں انبیاء  علیہمُ السَّلام  کے مکاشفات کا ذکر موجود ہے اور اولیاء کرام کے روحانی تجربات و واردات و مشاہدات کا تو شمار ہی نہیں ہے۔ ان سب واقعات میں روحوں کے انسانوں پر تجربات نہیں ہیں بلکہ انسانوں ہی کے جسمانی و روحانی دونوں یا صرف روحانی مشاہدات ہیں۔ لیکن اگر دعوے سے یہ مراد ہے کہ انسانوں کی زندگی کے جملہ امور حقیقت میں روحوں کے انسانوں پر کئے جانے والے تجربات ہیں جو انسانوں کو معلوم ہوں یا نہ ہوں تو یہ ایک فضول قسم کا دعویٰ ہے۔ یا تو اس دعوے کا ثبوت قرآن و حدیث اور اصحابِ باطن اولیاء کرام سے ہو اور یا پھر حقیقتاً روحوں کی ایک بڑی تعداد آکر یہ بتائے۔ یہ نہیں کہ ایک بندہ بیٹھے بٹھائے خواب و خیال میں یا کسی خللِ دماغی (Mental disorder) میں یا کسی جن بھوت سے رابطے میں ہو اور جن بھوت اسے خود کو روح بلکہ روح الارواح قرار دے کر رنگ برنگے پیغام دیتا رہے اور نفسیات دان سب کو تسلیم کرتا جائے۔

دعویٰ : ماہر نفسیات ڈاکٹر کئی ایسے مریضوں سے ملا جنہوں نے ٹرانس میں پچھلے جنموں کی زبانیں بولنا شروع کر دیں جب کہ یہ نارمل زندگی (Normal life) میں اس زبان (Language) کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے تھے۔

جواب : کسی زبان کو نہ جاننے کے باوجود اس زبان کا بولنا اگر حقیقت میں پایا بھی جائے تو یہ کہاں سے ثابت ہوگیا کہ یہ پچھلے جنم کی زبان ہے؟ کیا زبانوں کے علم اور انسانی دماغ سے اس کے تعلق کی نوعیت نیز انسانی دماغ کے اربوں کی تعداد میں موجود خلیات کے جدا جدا اور باہمی ملاپ سے پیدا ہونے والے تمام فنکشنز (Functions) کا ہمیں علم ہوچکا ہے؟ ہرگز نہیں۔ زبانوں کی صرف تاریخی معلومات (جن کا تعلق عالَمِ باطن سے نہیں بلکہ عالمِ ظاہر سے ہے) آج تک پوری طرح واضح اور جمع نہیں ہوسکیں بلکہ ماہر لسانیات (Linguists) مزید حقائق کی تلاش اور دریافت میں لگے ہوئے ہیں تو انسانی ذہن کی گہرائی اور وسعت کہاں سے معلوم ہوگئی جو نجانے دماغ کی کن گہرائیوں سے تعلق رکھتی ہیں۔ غیر معلوم زبانیں بولنے پر جنم جنم والی توجیہ ، محض ایک توجیہ ہے جس کی حقیقت ہونے کے لئے بہت سے دلائل کی ضرورت ہے اور یہ کبھی ثابت نہیں ہو سکے گا کیونکہ روحوں کے خالق ، اللہ ربُّ العالمین نے جب آواگون کو مردود قرار دے دیا تو اب مَعاذَاللہ خدا سے زیادہ جاننے کا دعویٰ کون مردود کرسکتا ہے۔            (مزید سوالات و جوابات اگلی قسط میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقاتِ شرعیہ ، دار الافتاء اہلِ سنت ، فیضانِ مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code