مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

حدیث پاک اور اُس کی شرح

 مصطفےٰ جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

* مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے : اِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً یعنی میں رحمت بناکر بھیجا گیا ہوں۔ [1]

اللہ پاک نے اپنے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو عالَمین کے لئے رحمت بناکر بھیجا ، اس حدیثِ پاک میں رسول ِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِسی رحمت کا اظہار فرمایا ہے۔

رحمتِ مصطفٰے کی امتیازی شان :

رحمتِ مصطفٰے  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی امتیازی شان ذہن نشین کرنے کے لئے آمدِ مصطفےٰ سے پہلےکا ایک جائزہ لیتے ہیں ، چنانچہ مصطفےٰ جانِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی آمد سے پہلے لوگ کُفر و جہالت کے اندھیروں میں بھٹک رہے تھے ، یہ اندھیرا اتنا گہرا تھا کہ علم کی روشنی ، اخلاق و کردار کا ستھرا پَن ، امانت و دیانت کی علامات ، امن و امان اور ترقی و خوشحالی لانے والی اور انسان کو انسان بنانے والی کئی چیزیں یکسر ختم ہوچکی تھیں اور حق کے طلب گاروں کوفلاح و کامیابی کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا ایسے میں اللہ پا ک نے نورِ مصطفےٰ کو تمام جہانوں (خواہ وہ عالَمِ ارواح ہو یا عالَمِ اجسام ، ذوی العُقُول ہوں یا غیر ذوی العقول سب) کیلئے رحمت بناکر بھیجا تومصطفےٰ جان ِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے لوگوں کو حق کی طرف بلایا ، سیدھا راستہ دکھایا ، حلال و حرام کا معیار مقرر فرمایا۔

ربِّ کریم نے رسولِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شانِ رحمت کو اِس طرح امتیازی مقام عطا فرمایا کہ آپ نے ایمان لانے والے اور اطاعت و پیروی کرنے والے کو دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی خوش خبری سنائی۔ [2]

رحمتِ مصطفےٰ کے چند نظارے :

اللہ پا ک نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پیغامِ توحید پہنچانے اور راہ ِ حق دکھانے کیلئے  بھیجا ، اس معاملے میں آپ کے ہر انداز سے رحمت و شفقت کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔

آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک موقع پر تین مرتبہ ارشاد فرمایا : اللہ پاک نے اس اُمّت کے لئے آسانی پسند فرمائی ہے اور تنگی کو ناپسند فرمایا۔ [3] مزاج یہ تھا کہ حضرت سیّدتُنا عائشہ  صدّیقہ  رضی اللہُ عنہا  فرماتی ہیں : حضور ِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب بھی دوچیزوں میں سےکسی ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ دونوں میں سے آسان چيز کو اختیار فرماتے بشرط یہ کہ وہ گناہ نہ ہو ، اگر وہ آسان چيز گناہ ہوتی تو تمام لوگوں سے زیادہ آپ اس سے دوری اختیار فرماتے۔ [4] نیز جن باتوں کی وجہ سے اُمّت کے مشقّت میں پڑجانے کا اندیشہ ہوتا اُس کام کو کرنے کا حکم نہ فرماتے ، مثلاً :

(1)اُمّت کے کمزور ، بیمار اور کام کاج کرنے والے لوگوں کی مَشَقَّت کے پیشِ نظر عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخّرنہ فرمایا۔

(2)کمزوروں ، بیماروں اور بچّوں کا لحاظ کرتے ہوئے نماز کی قراءت کو زیادہ لمبا نہ کرنے کا حکم دیا۔

(3)رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ اُمّت پر فرض نہ ہو جائیں۔

(4)اُمّت  کہیں مَشَقَّت میں نہ پڑجائے  اس لئے آپ نے انہیں صومِ وصال[5]  رکھنے سے منع فرما دیا۔

(5)اُمّت کی مَشَقَّت کی وجہ سے ہر سال حج کو فرض نہ فرمایا۔

(6)مسلمانوں پر شفقت کرتے ہوئے طواف کے تین چکروں میں رَمل کا حکم دیا تمام چکروں میں نہیں دیا۔

(7)تاجدارِ رِسالت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پوری پوری رات جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور اُمّت کی مغفرت کے لئے اللہ پاک کے دربارمیں انتہائی بےقراری کے ساتھ گِریہ و زاری فرماتے رہتےیہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر وَرَم آ جاتا تھا۔ [6]بروزِ قیامت جب ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہوگا ایسے مشکل ترین وقت میں بھی آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے گناہ گار اُمّتیوں کی خاطر بے چین و بے قرار ہوں گے ، انہیں اپنے دامنِ رحمت میں چھپائیں گے ، ربِّ کریم سےان کی بخشش کروائیں گے اور بارگاہِ الٰہی میں سفارش کرواکر انہیں جنّت میں داخل کروائیں گے۔

آئیے!ہم خود پر غور کریں :

اَلحمدُلِلّٰہ! ہمیں مصطفےٰ جانِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اُمّتی ہونے پر فخر ہے ، ذرا سوچئے!رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو ہمارا کتنا احساس ہے اور وہ ہم پر کتنے شفیق و مہربان ہیں ، اب ذرا ہم اپنے بارے میں بھی غور کرتے چلیں کہ ہمیں اپنے آقا و مولیٰ ، مکی مدنی مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کیسی اور کتنی مَحبّت ہے؟ ہم نے آپ کے احسانات کے بدلے میں آپ کو کتنا خوش کیا اور آپ کے فرامین پر ہم کتنا عمل کرتے ہیں؟ مصطفےٰ جانِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اُمّتی تو خوفِ خدا والا ہونا چاہئے ، عاشق ِ صحابہ و اہلِ بیت ہونا چاہئے ، نمازوں کا پابند ہونا چاہئے ، اپنی ضرورت کے مسائل اور دیگر فرائض و واجبات کا  جاننے والا ہونا چاہئے ، تقویٰ و پرہیزگاری کا پیکر ہونا چاہئے ، اپنی شرعی ذمّہ داریاں پوری کرنے والا ہوناچاہئے ، تلاوتِ قراٰن کا حریص ہونا چاہئے ، ناجائز و حرام کاموں سے بچنے والا بلکہ اپنی اولاد وغیرہ کو ان کاموں سے بچانے والا ، ان کی صحیح اسلامی تربیت کرنے والا ہونا چاہئے ، اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنے والا ہونا چاہئے ، بہترین خوبیوں سے آراستہ ہونا چاہئے ، بےحیائی کے کاموں سے بچنے والا ہونا چاہئے ، باطنی بُرائیوں سے دُور ہونا چاہئے ، مسلمانوں کا خیرخواہ ہونا چاہئے ، آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا اُمّتی رحمتِ کونین  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے والا ہونا چاہئے ، سُنّتوں کی پیروی کرنے والا ہوناچاہئے۔

اللہ کریم ہم سب کو پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دامنِ رحمت سے وابستہ رہ کر زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صَد شُکْر خدایا تُو نے دیا ، ہے رَحمت والا وہ آقا

جو اُمّت کے رنج و غم میں ، راتوں کو اَشک بہاتا رہے

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث ، المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر) ، کراچی



[1] مسلم، ص1074، حدیث:6613

[2] تفسیرکبیر، 8/193ملخصاً

[3] معجم کبیر،20/298،حدیث:707

[4] بخاری، 4/133، حدیث:6126

[5] بغیر افطار کئے اگلا روزہ رکھ لینا اور یوں مسلسل روزے رکھنا صومِ وصال کہلاتا ہے

[6] صراط الجنان،5/267ملخصاً


Share