ننھے میاں کی کہانی

بُھنے ہوئے چنے

* حیدر علی مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اکتوبر 2021

ننھے میاں آج شام سے ہی نہا دھو کر صاف ستھرے کپڑے پہنے ، عمامہ شریف باندھے ، سارے گھر میں ایک کمرے سے دوسرے کمرے میں گھوم پھر رہے تھے۔ جب سے ماہِ میلاد ربیعُ الاوّل کا چاند نظر آیا تھا ننھے میاں کے لئے تو ہر دن گویا عید کا دن تھا ، محلے میں مکی مدنی آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی ولادت کی خوشی میں محافلِ میلاد  کا سلسلہ جاری تھا۔ چھوٹے سے ننھے میاں جب اپنی پیاری سی آواز میں آنکھیں بند کرکے جُھوم جھوم کر نعت پڑھتے تو سننے والوں پر ایک کیفیت طاری ہوجاتی۔

مغرب سے کچھ دیر پہلے پڑوس والی آنٹی ننھے میاں کو دیکھ کر کہنے لگیں : ننھے میاں! آج کہاں جانے کی تیاری ہے؟

ننھے میاں کی امی جان جو کچن سے شربت کا گلاس پکڑے آرہی تھیں ، کہنے لگیں : پچھلی گلی میں سبزی کے ٹھیلے والے عبدالرّحمٰن بھائی ہیں ناں ، ان کے گھر میں عشا کے بعد محفلِ میلاد ہےتو وہیں جانے کے لئے تیار ہوئے بیٹھے ہیں۔

آنٹی بولیں : مَاشآءَ اللہ ، تو ننھے میاں وہاں نعت بھی پڑھیں گے؟

جی جی آنٹی ، میں نے تو نعت زبانی یاد بھی کر لی ہے ، ننھے میاں جلدی سے بولے :

جشنِ آمدِ رسول اللہ ہی اللہ              بی بی آمنہ کے پھول اللہ ہی اللہ

یہ والی نعت پڑھوں گا وہاں۔

بہت اچھے ننھے میاں ، ہمارا گڈو بھی بولنے لگ جائے تو اسے بھی آپ نے ہی نعتیں یاد کروانی ہیں۔ آنٹی بولیں۔

رات میں کھانے سے فارغ ہوتے ہی ننھے میاں اور ابو جان عشا کی نماز پڑھنے چلے گئے ، وہیں سے انہوں نے عبدالرّحمٰن بھائی کے گھر چلے جانا تھا۔

ننھے میاں ابو جان کا ہاتھ تھامے محفلِ میلاد میں پہنچے تو عبدالرّحمٰن بھائی کی بیٹھک محلے والوں سے بھر چکی تھی اور محلے کا ایک بچّہ سُورۃُ الضُّحیٰ کی تلاوت کر رہا تھا۔ تلاوت کے بعد ایک نعت ہوئی اور پھر عبدالرّحمٰن بھائی نے ننھے میاں کو نعت پڑھنے کے لئے آگے بلایا۔ ننھے میاں کی نعت کے بعد محلے کی مسجد کے امام صاحب بیان کرنے کے لئے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : پیارے بھائیو! آج ہم یہاں جس نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے میلاد کی خوشی منانے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں ان کی سیرت کا ایک بہت ہی پیارا پہلو جس کی آج ہمارے معاشرے کو ضرورت بھی ہے وہ خوش مزاجی ہے ، ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  اپنے صحابہ کے ساتھ خوش طبعی بھی فرمایا کرتے لیکن انداز ایسا ہر گز نہ ہوتا کہ جس سے کسی کا دل دکھے یا مذاق بنے۔

امام صاحب کی پیاری پیاری باتیں سبھی توجہ سے سُن رہے تھے ، بیان ختم ہوا تو عبدالرّحمٰن بھائی نے سبھی کو شربت پلایا اور جلیبیاں کھلائیں جس کے بعد سب اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔

ننھے میاں گھر پہنچے تو امی جان اور دادی اماں صحن میں ہی بیٹھی باتیں کر رہی تھیں ، بیٹے اور پوتے کو آتا دیکھ کر دادی اماں بولیں :

آ گئے تم لوگ! کیسا رہا میلاد شریف؟

ابو جان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی ننھے میاں منہ بسور کر بولے : میں آئندہ عبدالرّحمٰن انکل کے گھر میلاد پر نہیں جاؤں گا۔

ہیں ، یہ کیا بات ہوئی؟ دادی اماں نے امی جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

اور کیا ، میلاد رکھا تھا تو کم اَز کم بریانی کا انتظام تو کرتے ، یہ کیا صرف جلیبیاں کھلا کر بھیج دیا اور وہ بھی ٹھنڈی۔

ننھے میاں کی بات سُن کر دادی اماں اور ابو جان نے افسوس سے ایک دوسرے کو دیکھا اور امی جان بولیں : بیٹا! ایسی بات نہیں کرتے چلو آپ کے سونے کا وقت ہو گیا ہے۔

ننھے میاں جلدی سے بولے : میں آج دادی اماں کے پاس سوؤں گا۔

سونے کے لئے لیٹے تو ننھے میاں بولے : دادی اماں آج کوئی واقعہ تو سنائیں۔

تو سنو بیٹا! شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد محترم شاہ عبدالرحیم  رحمۃُ اللہِ علیہما  کہتے ہیں : ایک بار میرے فاتحہ دلانے کے لئے سوائے بھنے ہوئے چنوں اور گُڑ کے کچھ نہیں تھا ، مجبوراً میں نے انہی پر نیاز دے دی۔

ننھے میاں بیچ میں بول پڑے : ہیں! چنوں اور گُڑ پر کون نیاز دیتا ہے؟ لیکن ننھے میاں اس وقت ان کےپاس صرف وہی چنے اور گڑ تھے۔ دادی اماں نے جواب دیا ، لیکن آگے سنو! وہ بزرگ کہتے ہیں کہ پھر مجھے خواب میں نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی زیارت ہوئی تو دیکھا کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سامنے مختلف قسم کے کھانوں کے علاوہ وہی چنے اور گڑ بھی رکھے ہوئے تھے ،  آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بہت خوش تھے اور ان میں سے کچھ خود کھایا اور کچھ اپنے اصحاب میں بھی تقسیم کیا۔                  (فتاویٰ رضویہ ، 9 / 574 ، انفاس العارفین مترجم ، ص76 ملخصاً)

یہ سُن کر ننھے میاں فوراً اٹھ کر بیٹھ گئے اور حیرت سے بولے : ہمارے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے وہ چنے کھائے۔

جی ننھے میاں! لہٰذا کبھی بھی کسی کی نیاز کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے ، ہر کوئی اپنی حیثیت کے مطابق ہی نیاز کرتا ہے اور اللہ اور رسول کس کی نیاز قبول کرتے ہیں ہمیں کیا پتا ، البتہ جتنی نیت اچھی اتنا ہی ثواب زیادہ۔

ننھے میاں دل ہی دل میں سوچ رہے تھے کہ انہوں نے عبدالرّحمٰن انکل کی جلیبیوں کا مذاق اڑا کر اچھا نہیں کیا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ


Share

Articles

Comments


Security Code