شادیوں کو سستا کیجئے

شادیوں کوسستاکیجئے!

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّاؔر قادری  دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ

آج کل مُعاشرے نے شادی بیاہ کو مہنگا کردیا ہے ، حالانکہ میں اگر مبالغہ کرتے ہوئے کہوں کہ نکاح تو بالکل مفت ہے تو غلط نہیں ہوگا کیونکہ پیسے نہ ہوں تو نکاح بھی نہیں ہوگا ایسا نہیں ہے ، البتہ نکاح میں مرد پر مَہر کی ادائیگی لازم ہوتی ہے ، اس کی بھی مقدار شریعت میں کم سے کم دو تولے اور ساڑھے سات ماشے چاندی یا اس کی رقم ہے جو کہ آج کل کے حساب سے چندہزار روپے بنتی ہے ، زیادہ مہر کی کوئی حد بیان نہیں ہوئی مگر اتنا زیادہ بھی مُقرّر نہ کیا جائے کہ وہ مَرد پر بوجھ بنے۔ دعوتِ ولیمہ سنّت ہے ، ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زِفاف کی صبح کو اپنے دوست و احباب ، عزیز و اقارب اور محلے کے لوگوں کی حسبِ استِطاعت ضِیافت کرے۔ ولیمے کے لئے بھی کوئی ہال بُک کروانا ضروری نہیں۔ میرا نکاح مسجد میں ہوا تھا ، میری درخواست پر مفتیِ اعظم پاکستان مفتی وقارُ الدّین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  تشریف لائے اور انہوں نے میرا نکاح پڑھایا ، ہمارے ایک پڑوسی تھے جن کا گھر بڑا تھا اس میں میرا ولیمہ ہوا ، میں نے اپنا گھر بھی دلہن کی طرح نہیں سجایا تھا ، بس چند ایک ٹیوب لائٹس لگالی تھیں ، وہ ٹیپ ریکارڈر کا دور تھا تو میں اُسی پر نعت شریف کے کیسیٹ چلاتا تھا ، اللہ پاک کا بڑا کرم ہے کہ ہمارے یہاں گانے باجے کا تو تصوُّر اُس وقت بھی نہیں تھا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ مہندی مائیوں وغیرہ کی رسم ہم نے نہیں کی تھی ، افسوس! آج کل بہت بُرا حال ہے ، منگنی ، مہندی ، مائیوں ، رخصتی اورولیمے وغیرہ تقریبات میں جو اللہورسول (  عَزَّوَجَلَّ   و  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ) کو ناراض کرنے والے کام کئے جاتے ہیں ان کا شمار ہی نہیں ، ان کے علاوہ لڑکے والے لڑکی والوں سے جو طرح طرح کی ڈیمانڈز کرتے ہیں یہ ایک الگ دنیا ہے ، بسا اوقات ان ڈیمانڈز کو پوراکرتے کرتے لڑکی والے اپنے گھر کی ضرورت تک کی چیزیں بیچ دیتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات توقرضوں تلے دب جاتے ہیں مگر پھر بھی دولہے میاں اور اس کے گھر والوں کا دل نہیں بھرتا۔ ماں باپ اپنی بیٹی کو جہیز میں اپنی خوشی سے کچھ نہ کچھ دیتے ہی ہیں مگر دولہے والوں کی طرف سے مُطالبہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ بعض دولہے تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو شادی کے بعد بھی سسرال والوں کے ٹکڑوں پر پلنے کاپہلے ہی سے ذہن بنالیتے اور اپنے مَقاصِد کو پورا کرنے کے لئے شادی کے بعد اپنی بیوی کے ذریعے مالی فائدہ اٹھاتے ہیں ، یادرکھئے! شادی سے پہلے جہیز کے نام پر اور شادی کے بعد بھی دولھا یا اُس کے گھر کے افراد کی طرف سے مطالبے کرنا دُرست نہیں اور دولھا کے مطالبے پر دولھا یا اُس کے خاندان والوں کے شر سے بچنے کے لئے جو کچھ مال ان کو دیا گیا وہ رشوت ہے اور رشوت كا لينا دينا دونوں  کام حرام ہیں۔ لڑکے کی ڈیمانڈز پر دینے والا باپ یا لڑکی کا بھائی وغیرہ تو اپنی عزت بچانے اور اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرنے اور اسے خوش دیکھنے پر مجبور ہوتے ہیں ، لیکن مانگنے والا گناہ گار ہے۔  اللہ کریم ہم سب کومل جُل کر جہیز کے نام پر ڈیمانڈ کے اس ناسُور کو ختم کرنے اور شادیاں آسان کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ : یہ مضمون یکم(یعنی پہلی) ربیعُ الآخر1441ھ کے “ مدنی مذاکرے “ کی روشنی میں تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت   دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ   کو چیک کروانے کے بعد پیش کیا جارہا ہے۔


Share