جشنِ ولادت پر کیک کاٹنا

جشنِ ولادت پر کیک کاٹنا

ماہنامہ ستمبر 2024

از:شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

اللہ پاک کی بے شمار نعمتوں میں سے  سب سے عظیم نعمت  حضور نبی رحمت، شفیعِ امت، احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ قراٰنِ کریم نے   ہمیں نعمت ملنے پر اللہ ربُّ العزت کا شکر ادا کرنے اور اس نعمت  پر خوشی منانے  کی رغبت دلائی ہے مگر یاد رہے خوشی کے اس موقع پر وہی طریقہ اختیار کرنا ہوگا جس میں  گناہ نہ ہو، یعنی  ناچ گانا،ڈھول بجانا ،نامحرم مرد اور عورتوں کا بے پردہ جمع ہونا وغیرہ  نہ پایا جائے۔  اگر ایسا ہو تو یہ ہرگز شکرانِ نعمت نہیں۔ حضرت زِیادبِن عُبید رحمۃُ اللہِ علیہ  سے منقو ل ہے: ”نعمت پانے والے پر اللہ پاک کا ایک حق یہ ہے کہ وہ اس نعمت کے ذریعے نافرمانی کا مرتکب نہ ہو۔“(تاریخ مدینہ دمشق  ،19/191)لہٰذا جشنِ ولادت منانے  کا کوئی بھی ایسا طریقہ جو شریعت کے خلاف ہو، اُس سے بچنا ضروری ہے۔

پچھلے کچھ سالوں سے  بعض جگہوں پر جشنِ ولادت کے موقع پر   کیک  کاٹنے  کا  رواج  چل رہا ہے۔  کیک کاٹنا  اگرچہ جائز ہے، مگر جَشنِ وِلادت کےاس  کیک پر کوئی ”نقشِ نعلِ پاک“ بناتا ہے، کوئی عىد مىلادُ النبى لکھتا ہے، توکوئی گنبدِ خضریٰ بناتا ہے اور کوئی رسولِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام مبارک ”محمد“ لکھواتا ہے۔ اس طرح کرنے والوں کو خود غور کرنا چاہئے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اسمِ مبارک ،نقشِ نعلِ پاک اور گنبدِ خضریٰ ہمیں دل و جان سے زیادہ عزیز ہیں اور کوئی بھی ذی شعور شخص نہیں چاہتا کہ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے دل پر چھری پھیرے تو پھر ان مبارک ناموں اورمقدس چیزوں پر چھری چلانے کو کس طرح دل چاہتا ہے؟ لہٰذا عشقِ رَسُول کا تقاضا یہی ہے کہ نہ ایسا کیا جائے نہ ایسی جگہ جایا جائے جہاں ایسا کیا جاتا ہو۔ اسی طرح بعض جگہوں پر بہت بڑے بڑے سائز کے کیک بنائے جاتے ہیں اورپھر کاٹ کر عوام میں تقسیم کئے جاتے ہیں اور  اس موقع پر مَعاذَ اللہ میوزک اور تالىاں بھی  بجتی ہیں جو کہ گناہ کے کام ہیں اور شمع بھی بجھائی جاتی ہىں، معاذَ اللہ جشنِ ولادت کے نام پر ہونے والے یہ طریقے انتہائی غَلَط ہیں۔ ہاں جشنِ ولادت کی خوشی میں بریانی، پلاؤ یا مٹھائی وغیرہ لوگوں کو کھلانا یا مزیدار شربت یا دودھ پلانا جائز بلکہ اللہ کی رضا کے لئے ہو تو باعثِ ثواب ہے۔

حضرت اِمام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیدائش کے مہینے میں اَہلِ اِسلام ہمیشہ سے محفلیں مُنْعَقِد کرتے، دَعْوَتوں کا اہتمام کرتے، ربیع الاول کی راتوں میں مختلف صدقات کرتے اور خوشی کا اظہار کرتے چلے آرہے ہیں۔(مواہب لدنیہ، 1/78) اللہ رب العزت کے سب سے آخری نبی کی ولادت کی خوشی کے موقع پر الحمدُ للہِ الکریم دعوتِ اسلامی کے عاشقانِ رسول ان کاموں کے ساتھ ساتھ مدنی قافلوں میں بھی سفر کرتے ہیں اور ماہِ ولادت ربیعُ الاول میں چاند رات سے بارھویں رات تک ہونے والے مدنی مذاکروں میں شریک ہوتے بارہ ربیعُ الاوّل کو صبحِ بہاراں کے وقت خوب سوز و رقّت کے ساتھ دُرودوں اور نعتوں کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔اے عاشقانِ رسول! آپ بھی عید میلادُ النبی ایسے انداز سے منایئے جو اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب اور باعثِ اجر و ثواب ہو۔

(نوٹ:یہ مضمون 27رمضان المبارک 1441ھ بمطابق 20مئی2020ء کو بعد نمازِ تراویح ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرنے کے بعد امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ سے نوک پلک درست کروا کے پیش کیا گیا ہے۔)


Share