نئے لکھاری

میانہ روی اور اعتدال کی اہمیت

ماہنامہ مارچ2021

میانہ روی سے مراد اوسط درجے کی روش ، کفایت شعاری اور اعتدال ہے ، دینِ اسلام ہمیں زندگی کے تمام معاملات میں اعتدال اور میانہ روی کا حکم دیتا ہے ، دین کا ہر حکم فطرت کے عین مطابق اور اعتدال پر قائم ہے ، مثلاً عبادات ، اخراجات ، گفتگو ، آواز ، چال وغیرہ۔

قدرت کا نظام : اللہ کریم نے ہر جاندار کو زندہ رہنے کے لئے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ، جیسے پانی کو دیکھ لیں ، ہر جاندار کی زندگی کے لئے یہ کتنا ضروری ہے ، لیکن اگر کوئی پانی کے اندر نہر میں گر جائے تو وہ پانی کی بہتات کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو سکتاہے اور اگر کوئی صحرا میں بھٹک رہا ہو اور وہاں پانی کی بُوند تک نہ ملے تو بھی زندگی ختم ہو جائے گی ، سیلاب کی وجہ سے پانی کی کثرت ہو جائے تو علاقوں کے علاقے اس کی زَدمیں آ کر تباہ ہو جاتے ہیں۔

 اسی طرح ہوا کو دیکھ لیں ، اگر اس کی کثرت ہو جائے تو طوفان اور آندھیوں کی صورت میں کتنے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اگر ہوا بالکل ہی نہ ملے تو بھی دم گھُٹنے سے موت واقع ہو جاتی ہے ، اس لئے ہمیں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ میانہ روی کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔

عبادات میں میانہ روی : عبادت نہ تو اتنی زیادہ کی جائے کہ آدمی کے کام متأثر ہونے لگیں اور نہ ہی اتنی کم کہ اس اہم فریضے سے غفلت کا گُمان ہونے لگے ، حضرت جابر بن سمرہ  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں کہ میں رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ساتھ نماز پڑھا کرتا تھا ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی نماز میں بھی اعتدال تھا اور خطبہ بھی معتدل (یعنی نہ بہت طویل اور نہ بہت مختصر) ہوا کرتا تھا۔ )[i](

اخراجات میں میانہ روی : کفایت شعاری سے کام لینا اخراجات میں میانہ روی ہے ، انسان کو چاہئے کہ مال و دولت کو ضرورت کے مطابق خرچ کرے ، کیونکہ اخراجات میں میانہ روی ، اِسراف اور بخل کے درمیان کی راہ ہے۔ ہمارے نبیِّ محترم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے فرمایا : میانہ روی اختیار کرنے والاکبھی مفلس نہیں ہوتا۔ )[ii](

اسلام نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا بھی بہت اچھا سلیقہ بتایا ہے کہ صدقہ بھی اتنا نہ دو کہ بعد میں تم خود صدقہ لینے والی حالت میں آ جاؤ ، سُورۃُ الفُرقان میں اللہ کریم نے اپنے بندوں کی یہ صفت بھی بیان فرمائی ، ترجَمۂ کنزُالعرفان : اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔ )[iii](

آواز اور گفتگو میں اعتدال : آپس میں گفتگو کے دوران بھی ہماری آواز پست ہونی چاہئے ، قراٰنِ پاک میں اللہ کریم نے صحابۂ کرام   رضی اللہُ عنہم  کو سکھایا کہ وہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے سامنے اونچی آواز سے گفتگو نہ کریں ، کیونکہ یہ عمل ان کے تمام نیک اعمال کو ضائع کرنے کا سبب بن جائے گا ، تیز آواز میں باتیں کرنے سے مریض ، پڑھنے والے ، سونے والے اور دیگر کاموں میں مصروف لوگ متأثر ہوتے ہیں۔

چال میں میانہ روی : اسلام ہمیں چال میں بھی میانہ روی سکھاتا ہے ، غرور و تکبر کے ساتھ نہیں چلنا چاہئے اور نہ ہی اتنا آہستہ چلے کہ بیمار لگے ، قراٰنِ پاک میں تکبر کے ساتھ چلنے والے کو ناپسند کیا گیا ہے ، ہمارے نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  بہت باوقار انداز میں چلا کرتے تھے ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میانہ روی اور نرمی سے چلتے تھے ، روایت ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ایسا چلتے تھے کہ گویا زمین آپ کے لئے سمٹتی ہے۔ )[iv](

ہمیں چاہئے کہ ہم زندگی کے تمام مراحل جیسے تعلیم ، کھیل کود ، تفریح ، کھانے پینے ، سونے اور زندگی کے دیگر معاملات میں اعتدال کی روِش اپنائیں اور اللہ کریم کی بتائی ہوئی حُدود سے تجاوز نہ کریں۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اُمِّ غلام الیاس

(مجاہد کالونی ، بورے والا پنجاب)



([i])مسلم ، ص334 ، حدیث : 2003

([ii])مسند احمد ، 3 / 157 ، حدیث : 4269

([iii])پ19 ، الفرقان : 67

([iv])تفسير ابن کثیر ، 6 / 110 ، پ19 ، الفرقان ، تحت الآیۃ : 63


Share