وہ شمع کیا بُجھے جسے روشن خداکرے

باتیں میرے حضور کی

وہ شمع کیا بُجھے جسے روشن خدا کرے

* مولاناکاشف شہزاد عطاری مدنی

ماہنامہ مارچ2021

اللہ پاک نے اپنے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس قدر فضائل و کمالات اور امتیازات عطا فرمائے جن کا حقیقی اور مکمل بیان انسان کی طاقت سے باہر ہے۔ اللہ پاک کی رحمت پانے کے لئے ان بے شمار امتیازات وکمالاتِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  میں سے 3 کا مطالعہ فرمائیے :

(1)اللہ پاک نے جان کی حفاظت کا ذمہ لیا : اللہ پاک نے اپنے محبوب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی لوگوں سے حفاظت کا ذمہ خود لیا۔ ارشاد فرمایا گیا :

(وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-)

(ترجَمۂ کنزُ العرفان : اور اللہ لوگوں سے آپ کی حفاظت فرمائے گا۔ )([i]) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اے عاشقانِ رسول! اس آیتِ مبارکہ میں قتل سے حفاظت مراد ہے کہ کفار آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ منقول ہے کہ 70 ہزار فرشتے اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حفاظت کیا کرتے تھے جو نیند یا بیداری کسی حالت میں آپ سے جدا نہیں ہوتے تھے۔ ([ii])

پیارے اسلامی بھائیو! مختلف مواقع پر کئی افراد نے سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی جان لینے کی کوشش کی لیکن اللہ پاک نے اپنے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حفاظت فرمائی۔ ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے :

کون بچائے گا؟حضرت سیّدُنا جابر  رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ہمراہ ایک غزوے میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے۔ واپس آتے ہوئے ہم دوپہر کے وقت ایک ایسی وادی میں پہنچے جہاں کانٹوں والے درختوں کی کثرت تھی۔ صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان  مختلف درختوں کے نیچے آرام کرنے لگے جبکہ رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کیکر کے ایک درخت پر اپنی مبارک تلوار لٹکا کر اس درخت کے نیچے آرام فرما ہوئے۔ حضرت سیّدُنا جابر  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : ہم لوگ سوئے ہوئے تھے کہ اچانک حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے بلانے کی آواز سے ہماری آنکھ کھلی۔ ہم حاضرِ خدمت ہوئے تو دیکھا کہ ایک دیہاتی شخص بیٹھا ہوا ہے۔ سرکارِ نامدار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ اس شخص نے میری تلوار نِیام سے نکال لی۔ میں بیدار ہوا تو تلوار اس کے ہاتھ میں تھی اور اس نے مجھ سے کہا : آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے جواب دیا : اللہ (مجھے بچائے گا)۔ (اس شخص پر قابو پانے کے بعد) رحمتِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اسے کوئی سزا نہیں دی(بلکہ معاف فرمادیا)۔ ([iii])

شارحِ بخاری امام بدرُالدّین محمود عینی  رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کفار کے دلوں کو نرم کرنے اور انہیں دائرۂ اسلام میں داخل کرنے کی بہت زیادہ رغبت رکھتے تھے ، اسی لئے آپ نے اس دیہاتی کو سزا دینے کے بجائے معاف فرمادیا۔ اس کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ وہ دیہاتی نہ صرف مسلمان ہوگیا بلکہ اس نے واپس جاکر اپنی قوم کو اسلام کی دعوت پیش کی تو اللہ پاک نے اس کی بدولت کثیر لوگوں کو اسلام کی دولت عطا فرما دی۔ ([iv])

واپس چلے جاؤ : اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ صحابۂ کرام  علیہمُ الرِّضوان (بوقتِ ضرورت) سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی :

(وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِؕ-)

 تو آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے خیمے سے سر نکال کر ارشاد فرمایا : اے لوگو! واپس چلے جاؤ ، بے شک اللہ پاک نے مجھے محفوظ فرما دیا ہے (مجھے اب انسانوں کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے)۔ ([v])

فانوس بن کے جس کی حفا ظت ہواکرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

(2)نمازِ عصر کے بعد نماز پڑھنا : نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد نماز پڑھنا سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔ ([vi])

عصر کے بعد نماز کی ممانعت : فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : لَا صَلَاةَ بَعْدَ الْعَصْرِ حَتّٰى تَغِيْبَ الشَّمْسُ یعنی عصر کے بعد کوئی نماز نہیں یہاں تک کہ سورج ڈوب جائے۔ ([vii])

صدرُ الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں : نمازِ عصر سے آفتاب زرد ہونے تک نفل منع ہے۔([viii]) ایک مقام پر فرماتے ہیں : عصر کے بعد نفل جائز نہیں۔ ([ix])

ظہر کی 2 سنتوں کی قضا : اُمُّ المؤمنین حضرت ام سَلَمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے : رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نمازِ عصر پڑھ کر میرے گھر تشریف لائے اور 2رکعت نماز ادا فرمائی۔ میں نے عرض کیا : یارسولَ اللہ! آج آپ نے ایک ایسی نماز پڑھی ہے جو پہلے نہیں پڑھتے تھے۔ ارشاد فرمایا : خالد بن ولید ( رضی اللہ عنہ ) مالِ غنیمت لے کر آئے تھے ، اس (کی تقسیم میں مصروفیت) کے سبب میں ظہر کے بعد کی 2 رکعت نہیں پڑھ سکاتھا ، وہ 2 رکعتیں اب پڑھی ہیں۔ میں عرض گزار ہوئی : اگر ہم یہ 2 رکعتیں نہ پڑھ سکیں تو کیا ان کی قضا کریں؟ ارشاد فرمایا : نہیں۔ ([x])

اے عاشقانِ رسول! سرکارِ دوعالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  جب کوئی نماز پڑھنا شروع کرتے تو پھر اس کی پابندی فرماتے تھے۔ نمازِ ظہر کے بعد کی یہ2سنتیں جو ایک مرتبہ کسی عُذْر کے سبب رہ گئی تھیں آپ نے نمازِ عصر کے بعد پڑھیں اور پھر اس کے بعد وصالِ ظاہری تک انہیں ادا فرماتے رہے۔ ([xi])

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ   رضی اللہ عنہا  سے روایت ہے کہ اللہ کے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نمازِ عصر کے بعد 2 رکعتیں پڑھنے کو ترک نہیں فرماتے تھے۔ ([xii])

شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق امجدی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : وہ جو حضورِ اقدس  صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وسلَّم  سے مروی ہے کہ بعدِ عصر دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے وہ حضورِ اقدس  صلَّی تعالیٰ اللہ علیہ وسلَّم  کے خصائص میں(سے)ہے۔ ([xiii])

(3)زمین لپیٹ دی جاتی : سرکارِ دو عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جب چلتے تو آپ کے لئے زمین لپیٹ دی جاتی تھی۔ ([xiv])

حضرت سیّدُنا ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : میں نے رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے زیادہ تیز رفتار کوئی شخص نہیں دیکھا ، گویا آپ کے لئے زمین لپیٹ دی جاتی تھی۔ (سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ چلنے کے لئے)ہم اپنی جانوں کو مشقت میں ڈال دیتے تھے جبکہ آپ تکلف نہ فرماتے (اور اپنی معمول کی رفتار سے چلتے رہتے)۔ ([xv])

مفتی احمد یار خان  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : حضور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی رفتار کی تیزی راستہ طے ہونے کے لحاظ سے تھی نہ کہ سرکار کے چلنے کے لحاظ سے ، حضورِ انور ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نہایت وقار سے آہستہ چلتے تھے۔ رب فرماتا ہے :

(وَ اقْصِدْ فِیْ مَشْیِكَ)

(ترجَمۂ کنزُالعرفان : اور اپنے چلنے میں درمیانی چال سے چل۔ )([xvi])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) مگر آپ ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کے آہستہ چلنے کے باوجود راستہ جلد اور بہت زیادہ طے ہوتا تھا۔ ([xvii])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



([i])پ6 ، المآئدۃ : 67 ، شرف المصطفیٰ ، 4 / 108

([ii])تفسیر صاوی ، 2 / 520 ، 521

([iii])بخاری ، 3 / 59 ، حدیث : 4135

([iv])عمدۃ القاری ، 12 / 166

([v])ترمذی ، 5 / 35 ، حدیث : 3057 ، نسیم الریاض ، 4 / 222

([vi])مواھب لدنیہ ، 2 / 264

([vii])بخاری ، 1 / 213 ، حدیث : 586

([viii])بہار شریعت ، 1 / 456

([ix])بہار شریعت ، 1 / 696

([x])مسندابویعلیٰ ، 6 / 123 ، حدیث : 6993 ، خصائص کبریٰ ، 2 / 416

([xi])مواهب لدنیہ ، 3 / 228 ، زرقانی علی المواھب ، 7 / 154

([xii])بخاری ، 1 / 215 ، حدیث : 592

([xiii])نزہۃ القاری ، 2 / 261

([xiv])شرف المصطفیٰ ، 4 / 211

([xv])ترمذی ، 5 / 369 ، حدیث : 3668

([xvi])پ21 ، لقمٰن : 19

([xvii])مراٰۃ المناجیح ، 8 / 61


Share

Articles

Comments


Security Code