سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

شانِ حبیب بزبانِ حبیب(قسط : 03)

* مولاناابوالحسن عطّاری مدنی

ماہنامہ مارچ2021

گزشتہ سے پیوستہ

وہ نبیوں میں امّی لقب پانے والا :

(10)اَنَا النَّبِيُّ الاُمِّيُّ الصَّادِقُ الزَّكِيُّ ترجمہ : میں غیب کی خبریں دینے والا وہ نبی ہوں ، جس نے اہلِ دنیا میں کسی سے  نہ پڑھا اور سچا اور  پاکیزگی والا ہوں۔ ([i])

اس حدیثِ مبارَکہ میں رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے 4 اوصافِ عظیمہ “ نبی “ ، “ اُمّی “ ، “ زَکی “ اور “ صادِق “  کا بیان ہے۔

لفظ “ نبی “ اپنے ضمن میں بڑے عظیم معانی و اَسرار رکھتا ہے ، لغوی طور پر اس کے معنیٰ غیب بتانے والے ، خبریں دینے والے کے ہیں۔ کئی آیاتِ قراٰنیہ اور کثیر روایات میں آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے غیب کی خبریں دینے کا بیان ہوا ہے۔ اہلِ مکّہ لفظِ “ نبی “ کے معنیٰ کو بخوبی جانتے تھے اسی لئے انہوں نے کئی مواقع پر ایسے سوال کئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ  لقب “ نبی “ سے ملقّب ہونے والے کو غیب کی خبر دینے والا جانتے تھے چنانچہ جبل بن قُشَیر اور شمویل بن زید نے رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کہا : اَخْبِرْنَا مَتٰى تَقُومُ السَّاعَةُ اِنْ كُنْتَ نَبِيًّا اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیں کہ قیامت کب آئے گی۔ ([ii])

حضرت جارُود بن معلیٰ اور سَلَمَہ بن عیاض اسدی  رضی اللہ عنہما  کے قبولِ اسلام کا واقعہ بھی بڑا دلچسپ ہے ، جارود بن معلیٰ نے سابقہ کتبِ سَماوِیہ پڑھ رکھی تھیں ، اور وہ جانتے تھے کہ نبی اللہ کے حکم سے غیب کی خبریں بتاتے ہیں ، چنانچہ ان دونوں نے مشورہ کیا کہ اپنے دل میں کوئی سوال رکھ لیں ، جو ہم ایک دوسرے کو بھی نہ بتائیں اور اس شخص کے پاس چلیں جو نبی ہونے کا دعویدار ہے ، اگر وہ وہی نبی ہوئے جن کی حضرت عیسیٰ نے بشارت دی ہے تو ان پر ایمان لانا ہمارے لئے باعثِ شرف ہوگا ، چنانچہ وہ دونوں سرکارِ مدینہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور  کچھ سوال جواب کے بعد جارود بن معلی نے عرض کی : اِنْ كُنْتَ يَامُحَمَّدُ نَبِیًّا فَاخْبِرْنَا عَمَّا اَضْمَرْنَا عَلَيْهِ  یعنی اے محمد ( صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم )! اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیں کہ ہم نے کیا بات اپنے دل میں چھپائی ہے؟([iii])

اسی طرح اہلِ مکّہ ہی نہیں بلکہ اہلِ علم جانتے ہیں کہ نبی کا معنی غیب کی بات بتانا ہے ، چنانچہ ملکۂ بلقیس نے حضرت سلیمان  علیہ السّلام  کی بارگاہ میں جب تحائف بھیجے تو ان میں ایک ڈبیہ تھی جس کے اندر ایک قیمتی موتی تھا ، ملکۂ بلقیس نے ساتھ ایک خط لکھ کر بھیجا جس میں یہ بھی تھا کہ اِنْ كُنْتَ نَبِيّاً اَخْبِرْ بِمَا فِى الْحُقَّةِ قَبْلَ اَنْ تَفْتَحَهَا یعنی اگر آپ نبی ہیں تو اس ڈبیہ کو کھولنے سے پہلے خبردیں کہ اس میں کیا ہے؟([iv]) چنانچہ حضرت سلیمان  علیہ السّلام  نے الله كی عطا سے اس کی خبر دے دی۔

جنگِ موتہ کے لئے لشکرِ اسلام کو روانہ فرماتے وقت رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے حضرت زید بن حارِثہ کو سپہ سالار مقرّر کرکے فرمایا کہ اگر یہ شہید ہوجائیں تو سپہ سالار جعفر بن ابی طالب ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو   عبداللہ بن رواحہ سپہ سالار ہوں گے اور اگر وہ بھی شہید ہوجائیں تو مسلمان جسے منتخب کرلیں وہ سپہ سالار ہوگا۔

اس دوران وہاں “ نعمان “ نام کا ایک یہودی بھی یہ سب سُن رہا تھا ، اس نے کہا : اَبَا الْقَاسِمِ! اِنْ كُنْتَ نَبِيًّا فَسَمَّيْتَ مَنْ سَمَّيْتَ قَلِيلًا اَوْ كَثِيرًا اُصِيبُوا جَمِيعًا یعنی اے ابوالقاسم! اگر آپ  نبی ہیں تو  آپ نے جتنے لوگوں کا نام لیا خواہ قلیل ہوں یا کثیر وہ سب شہید ہوں گے۔ ([v])

لغت میں اُمّی  اسے کہتے ہیں جو پڑھا نہ ہو ، جبکہ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اُمّی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے دنیا میں کسی سے بھی پڑھنا نہ سیکھا ، یہ بھی ایک عجب شان و عظمت ہے کہ ساری عمر ان ہی لوگوں میں گزری اور پھر ایک ایسی کتاب ان کے سامنے تلاوت کی جس کی مثل سارا عرب تو کیا ساری دنیا مل کر نہ بنا سکی ہے نہ بنا سکے گی ، آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کو اہلِ دنیا کے سامنے اُمّی اس لئے ظاہر فرمایا گیا کہ کہیں کوئی یہ اعتراض نہ کرے کہ انہوں نے یہ کلمات اپنے فلاں استاد سے یا فلاں دانا سے سُن کر بتائے ہیں۔

ایسا اُمّی کس لئے منت کشِ استاد ہو

کیا کفایت اس کو اِقْرَأ رَبُّکَ الْاَکْرَمْ نہیں([vi])

اور آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا وصفِ مبارک “ زَکی “ یعنی پاکیزگی والا ہونا  بھی بہت شان والا لقب ہے یعنی آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  خود تو ظاہری و باطنی ، کردار و گفتار اور ہر ہر اعتبار سے پاکیزہ و ستھرے ہیں ہی بلکہ آپ نے لوگوں کو بھی کُفر و شِرک کی نجاستوں سے پاک کیا اور انہیں اسلام کی طیب و طاہر زندگی عطا فرمائی ، قراٰنِ کریم میں اس شان کا بیان کچھ یوں ہے :

(لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ(۱۶۴))

ترجَمۂ کنزُ الایمان : بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے۔ ([vii])  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

شانِ  امانت داری :

(11)اَنَا اَمِينُ مَنْ فِي السَّمَاءِ ، يَاْتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً ترجمہ : میں آسمان کے مالک کا امین ہوں ، میرے پاس اس کی طرف سے صبح و شام آسمانی خبریں آتی ہیں۔ ([viii])

آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  كی شانِ صداقت و امانت کے تو کیا ہی کہنے کہ جان کے دشمن بھی آپ کو صادق و امین مانتے تھے ، یہی وجہ تھی کہ جب کفارِ مکّہ  اپنے باطل نظریات کے دفاع کیلئے آپ کی جان کے دشمن ہوگئے اور رات کے وقت مَعاذَ اللہ قتل کرنے کیلئے  مبارک گھر کا گھیراؤ کئے کھڑے تھے تو اس وقت بھی اُن ناہنجاروں کی امانتیں پیارے مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے پاس رکھی ہوئی تھیں ، قربان جائیے عجب اندازِ امانت داری تھا ہجرت کے وقت بھی  شیرِ خدا حضرت علی  رضی اللہُ عنہ  کو امانتیں لوٹانے کا پابند فرما کرگئے۔

ربِّ کریم نے مبارک چہرے کو ہی ایسا صدق و امانت کا تابندہ چاند بنایا تھا کہ بنا کسی واقفیت و گواہی کے بھی لوگ یقین کرلیتے تھے ، چنانچہ مروی ہے کہ ایک قافلہ مدینۂ پاک کے قریب شہر سے باہر ایک جگہ پر ٹھہرا ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ادھر سے گزر ہوا تو آپ نے ان سے فرمایا : کہاں کا ارادہ ہے؟ وہ بولے : مدینہ ، فرمایا : کس لئے؟ وہ بولے : کھجوریں لینے ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ایک اونٹ کی جانب اشارہ کرکے فرمایا : کیا اسے بیچتے ہو؟ انہوں نے ہاں میں جواب دیا ، سودا ہوگیا ، قیمت طے ہوگئی ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے اونٹ کی مہار یعنی رسی پکڑی اور روانہ  ہوگئے ، وہ لوگ پیارے آقا  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے حُسن و جمال اور رُعب میں ایسے کھوئے کہ قیمت کا مطالبہ ہی نہ کیا ، جب آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  چلے گئے تو اب آپس میں کہنے لگے کہ یہ ہم نے کیا کیا؟ ایک شخص کو ہم جانتے تک نہیں اور اسے اونٹ تھمادیا وہ بھی بغیر قیمت کے ، اتنے میں اسی قافلے کی ایک عورت جو یہ سب دیکھ رہی تھی کہنے لگی : “ خود کو ملامت نہ کرو ، میں نے ایسے آدمی کا چہرہ دیکھا ہے جو کبھی دھوکا نہ دے گا ، اللہ کی قسم! میں نے دیکھا کہ ان کا چہرہ تو گویا چودھویں رات کے چاند کا ٹکڑا ہے ، تمہارے اونٹ کی قیمت کی میں ضامِن ہوں۔ “ اسی دوران رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے ایک صحابی تشریف لائے اور قیمت سے زیادہ کھجوریں دیتے ہوئے فرمایا : “ یہ لو انہیں کھاؤ ، پیٹ بھرو ، ماپو اور اپنی قیمت پوری کرلو “ یعنی قیمت سے کہیں زیادہ کھجوریں عطا فرمائیں۔ ([ix])                                                                                                                                                                                                                                                      

  (بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی



([i])طبقات ابن سعد ، 1 / 252

([ii])سیرت ابن ہشام ، ص232

([iii])سیرت حلبیہ ، 3 / 311 ، سبل الھدیٰ والرشاد ، 6 / 303

([iv])تاریخ الخمیس ، 1 / 451 ، تفسیر قرطبی ، 7 / 151 ، پ19 ، النمل ، تحت الآیۃ : 35 ملتقطاً

([v])دلائل النبوۃ للبیھقی ، 4 / 362

([vi])حدائق بخشش ، ص106

([vii])پ4 ، اٰلِ عمران : 164

([viii])بخاری ، 3 / 123 ، حدیث : 4351

([ix])سبل الھدیٰ والرشاد ، 6 / 357 ، دلائل النبوۃ للبیھقی ، 5 / 381


Share

Articles

Comments


Security Code