
روشن ستارے
حضرت عُکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2025
عربی زبان کی ضربُ المثل ہے ”سَبَقَکَ بِہَا عُکَّاشَۃُ“ یعنی عکاشہ تم پر سبقت لے گیا۔ جب ایک شخص کسی معاملے میں دوسرے سے آگے بڑھ جائے تو پیچھے رہ جانے والے کےلئے یہ ضربُ المثل کہی جاتی ہے۔ ([1])عکاشہ کون تھے اور یہ ضربُ المثل کیسے بن گئی؟ آئیے اس کے لئے مضمون پڑھئے :
حضرت عُکَّاشَہ بن مِحْصَن اَسَدی رضی اللہُ عنہ صحابی ِ رسول ہیں آپ سابقین اوّلین اور اہلِ صُفّہ صحابہ میں سے ہیں([2])آپ کا شمار نہایت بہادر، ممتاز اور باکمال افراد میں ہوتا ہے([3])آپ اپنے بھائی حضرت ابوسِنان رضیَ اللہ عنہ سے دو سال چھوٹے تھے([4])آپ مشہور صحابیہ حضرت اُمِّ قیس مہاجرہ رضی اللہُ عنہاکے بھائی ہیں۔([5])
کمان ٹھیک ہوگئی: حضرت عکاشہ رضی اللہُ عنہ کو بارگاہِ رسالت سے کئی معجزات دیکھنے کا شرف بھی رہا ہے ایک جنگ کے موقع پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تیر چلارہے تھے کہ اچانک کمان کنارے پر سے ٹوٹ گئی اور ساتھ ہی تانت یعنی کنار ے پر بندھا ہوا تار بھی ٹوٹ گیا اور رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دستِ اقدس میں تار کا بالشت برابر ایک ٹکڑا رہ گیا (جوکھینچ کر کمان کے کنارے تک نہیں پہنچ سکتا تھا)، حضرت عکاشہ رضی اللہُ عنہ نے دستِ اقدس سےکمان لی اور تانت کو کھنچ کر کنارے پر باندھنا چاہا (مگر کامیاب نہ ہوئے) عرض گزار ہوئے: یارسولَ اللہ! تانت کِھنچ کر کنارے تک نہیں پہنچ رہی، ارشاد فرمایا: اس کو کھینچو! پہنچ جائے گی، یہ فرمان سُن کر آپ نے تانت کو کھینچا تو وہ کھنچتی چلی گئی اور کنارے تک بآسانی پہنچ گئی آپ نےتانت کو کمان کے کنارے پر دو یا تین مرتبہ بل دے کر لپیٹ دیا پھر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کے ہاتھ سے کمان لے کر دشمن پر تیر برسانے شروع کردئیے۔([6])
ٹہنی تلوار بن گئی:سن 2 ہجری ماہِ رمضان غزوۂ بدر میں آپ کی تلوار دشمن سے لڑتے لڑتے ٹوٹ گئی، آپ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو ایک ٹہنی عطا کی اور فرمایا:اے عکاشہ! اس سے لڑو! آپ نے ٹہنی ہاتھ میں پکڑ کر ہلائی تو وہ آپ کے ہاتھ میں ایک لمبی سفید چمکتی ہوئی مضبوط تلوار بن گئی آپ نے اسی تلوار سے دشمنوں کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ اللہ کریم نے مسلمانوں کو فتح سے ہمکنار کردیا،([7])وہ تلوار مسلسل آپ کے پاس رہی پھر آپ نے غزوۂ احد، خندق اور بعد کے تمام غزوات میں حصہ لیا اور اپنی تلوار کے خوب جوہر دکھائے۔([8])
سن 6 ہجری ماہِ ربیعُ الاوّل رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےآپ کی سربراہی میں چالیس صحابہ کو بنی اسد کے چشمۂ غَمْر کی طرف بھیجا۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ان پر حملہ کیا تو وہ لوگ اپنے اونٹوں کو چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے، صحابہ نے ان کے پیچھے جانا چاہا تو آپ نے منع کردیااور 200 اونٹوں کو مالِ غنیمت کی صورت میں لےکر مدینے پہنچے آپ اور آپ کے ساتھیوں میں نہ کوئی زخمی ہوا اور نہ ہی آپ کو کسی فریب و سازش سے واسطہ پڑا۔([9]) سن 9ہجری ماہِ ربیعُ الآخر میں بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو ایک جنگ پر روانہ کیا تھا۔([10])
عکاشہ سبقت لے گئے:ایک مرتبہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں ارشاد فرمایا:میں نے حج کے موسم میں تمام اُمتوں کو دیکھا، اپنی اُمّت کو دیکھا کہ انہوں نے میدانوں اور پہاڑوں کو گھیر رکھا ہے، مجھے ان کی کثرت نےخوش کردیا، مجھ سے پوچھا گیا: کیا آپ اس بات پر راضی ہیں؟ میں نے کہا:میں راضی ہوں۔پھر کہا گیا: ان کے ساتھ مزید 70 ہزار ہیں جو بغیر کسی حساب کےجنت میں داخل ہوں گے،وہ جوجھاڑ پھونک نہیں کرواتے،داغ نہیں لگواتے، بَدفالی نہیں لیتے اور اپنے رب پاک پربھروسا کرتے ہیں۔ یہ سُن کر حضرت عکاشہ رضی اللہُ عنہ کھڑے ہوگئے اورعرض کی:اللہ پاک کی بارگاہ میں دُعا کیجئے کہ وہ مجھے بھی ان میں کردے۔چنانچہ رحمتِ عالم نے دُعا مانگی: یا اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں سے کردے۔ دوسرے صحابی نے کھڑے ہو کر عرض کی:میرے لئے بھی دُعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی ان میں سے کردے۔ اِرشاد فرمایا: اس میں عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔([11])ایک روایت میں یوں ارشاد فرمایا: سب سے پہلے جو لوگ داخل ہوں گے ان کے چہرے چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتےہوں گے، پھر وہ لوگ داخل ہوں گے جن کے چہرے آسمان پر خوب چمکنے والے ستاروں کی طرح ہوں گے، یہ سُن کر آپ کھڑے ہوگئے اور عرض گزار ہوئے: اللہ کریم سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان میں سے کردے، رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا کی : اے اللہ ! عکاشہ کو ان میں سے کردے۔ کسی نے عرض کی: میرے لئے بھی دعا کردیجئے۔ ارشاد فرمایا: عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔([12])
عقیدۂ ختمِ نبوت کی حفاظت میں شہادت: سن 9 ہجری میں طُلَیْحہ بن خُوَیلِد اسَدی نے (قبول اسلام سے پہلے) دعویٔ نبوت کیا تھا([13]) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے اس کی سر کوبی کےلئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کی سربراہی میں ایک لشکر روانہ کیا ،حضرت خالد نے حضرت عکاشہ کے ساتھ حضرت ثابت بن اقرم کو آگے روانہ کیا تاکہ طلیحہ کی کوئی خبر لاسکیں، یہ دونوں حضرات گھوڑوں پر سوار تھے، راستے میں طلیحہ اور اس کے بھائی سلمہ سے ٹکراؤ ہوگیا، حضرت عکاشہ نے طلیحہ پر جبکہ حضرت ثابت نے سلمہ پرحملہ کیا، لیکن سلمہ نے حضرت ثابت رضی اللہُ عنہ کو شہید کردیا، قریب تھا کہ حضرت عُکاشہ رضی اللہُ عنہ طُلیحہ کو قتل کردیتے اتنے میں طلیحہ چیخا: میری مدد کرو، یہ مجھے قتل کردے گا، سلمہ پلٹ کر آپ کی طرف بڑھایہاں تک کہ دونوں نے مل کر آپ کو گھیر لیا اور شہید کردیا پھر ان دونوں حضرات کی نعش مبارکہ کو گھوڑوں کے سموں سے روندھ دیا، مسلمانوں کا لشکر یہاں پہنچا تو ان دونوں مقدس حضرات کی لاشوں كو دیکھ کر رنجیدہ اور دل برداشتہ ہوگیا پھر ان دونوں حضرات کی خون آلود کپڑوں کے ساتھ اسی جگہ تجہیز وتکفین کردی گئی۔([14]) ایک قول کے مطابق آپ نے 12 ہجری سر زمین نجد میں ”بُزَاخَہ “ کے مقام پر مرتدین سے جنگ کرتے ہوئے شہادت پائی مگر صحیح یہ ہے کہ آپ کی شہادت 11 ہجری میں ہوئی، طلیحہ اسدی نے آپ کو اپنے بھائی کے ساتھ مل کر شہید کیا تھا۔([15])
طلیحہ اسدی کا قبولِ اسلام: بعد میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہُ عنہ کے لشکرسے سامنا ہوا اور ان سے شکست کھانے کے بعد طلیحہ بن خویلد اسدی شام چلے گئے پھر توبہ کرکے اسلام قبول کرلیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی، کئی اسلامی جنگوں میں شامل ہوئے بالخصوص جنگ قادسیہ میں آپ نے اپنی جنگی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بالآخر معرکہ نہاوند 21 ہجری میں شہید ہوئے۔([16])
روایات: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ظاہری وصال کے وقت حضرت عکاشہ بن محصن کی عمر 44 سال تھی([17]) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عطا کی ہوئی وہ بابرکت تلوار وراثتاً آپ کی اولاد دَر اولاد کے پاس رہی۔([18])حضرت ابو ہریرہ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہم نے آپ سے روایات لی ہیں۔([19])
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments