
روشن ستارے
حضرت بَرَاء بن عازِب رضی اللہُ عنہما
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء
صحابیِ نبی صادق حضرت بَرَاء بن عازِب رضیَ اللہ عنہما فرماتے ہیں: میں نے مدینے میں لوگوں کو کسی چیز کے ملنے پر اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا خوش نبی معظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہجرت کرکے مدینے آمد پر دیکھا، کیا عورتیں، کیا بچے، کیا لونڈی غلام سبھی کی زبانوں پر جاری تھا: یہ اللہ کے رسول ہیں جو تشریف لاچکے ہیں۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! حضرت براء بن عازب رضیَ اللہ عنہما کی کنیت ابو عُمَارہ ہے، بڑے فقیہ انصار صحابۂ کرام میں آپ کا شمار ہوتا ہے ([2])کم عمری میں ہی حلقہ بگوش اسلام ہوچکے تھے ([3]) والد حضرت عازب اور بھائی عبید رضیَ اللہ عنہما بھی مسلمان ہوچکے تھے، ([4]) حضرت ابو بُردہ انصاری رضیَ اللہ عنہ آپ کے ماموں تھے ([5])آپ نے مدینے میں نبیِ محسن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آمد سے پہلے ہی سورۃُ الاَعْلیٰ یاد کرلی تھی۔([6])
یادِ نبی برحق:
سب سے اعلیٰ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادات اور حلیہ مبارکہ کو مختلف اوقات و انداز میں کبھی یوں ذکر کرتے : نبیِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ طویل قامت تھے نہ پستہ قد تھے، ([7]) کبھی یوں بتاتے: کندھے چوڑے تھے، ([8]) کبھی یوں فرماتے : میں نے کسی بھی ایسے کالی زلف والے کو سرخ جوڑے میں نہیں دیکھا جو نبیِ محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑھ کر حسین و جمیل ہو ، ([9]) کبھی بیان کرتے: لوگوں میں سب سے بڑھ کر حسین اور سب سے اچھی عادتوں والے تھے، ([10]) کوئی پوچھتا: کیا نبیِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا چہرہ مبارکہ تلوار کی مثل تھا؟ تو یوں جواب دیتے: نہیں! بلکہ چاند کی مثل (چمکدار اور روشن) تھا۔([11]) ایک مرتبہ آپ نے سب گھر والوں کو جمع کیا اور وضو کا پانی منگواکر وضو کیا پھر کئی نمازیں پڑھیں اور فرمایا: نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جیسے وضو کرتے تھے اور نماز پڑھتے تھے میں نے اس طریقے میں کچھ بھی کمی نہیں کی۔([12]) والد محترم حضرت عازب رضیَ اللہ عنہ بھی بڑے عاشقِ نبیِ مختار تھے ایک مرتبہ حضرت ابو بکر صدیق رضیَ اللہ عنہ نے والد صاحب سے ایک کجاوہ تیرہ درہم میں خریدا اور فرمایا: براء کو حکم دیجئے کہ وہ میرے کجاوے کو میرے گھر تک پہنچادے، والد صاحب نے عرض کی:آپ کے ساتھ براء کو اس وقت تک نہیں بھیجوں گا جب تک آپ مجھے نبی دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا واقعۂ ہجرت نہیں سنائیں گے، پھر حضرت ابوبکر صدیق رضیَ اللہ عنہ نے واقعۂ ہجرت بیان کردیا۔([13])
سنتِ نبیِ اکرم پر عمل:
ایک مرتبہ کسی نے آپ رضیَ اللہ عنہ سے ملاقات کی تو آپ نے اسے سلام کرتے ہوئے مصافحہ کیا اورمسکرانے لگے پھر فرمایا: تم جانتے ہو میں نے تمہارے ساتھ ایسا کیوں کیا ؟ ملاقات کرنے والے نے کہا: میں نہیں جانتا لیکن آپ نے کیا ہے تو اچھا ہی کیا ہوگا، آپ نے فرمایا: ایک مرتبہ میں نبیِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملا تھا تو انہوں نے میرے ساتھ یہی معاملہ کیا تھا، اور مجھ سے بھی پوچھا تھا، میں نے عرض کی کہ میں نہیں جانتا، تَوارشاد فرمایا: دو مسلمان ایک دوسرے سے ملتے ہیں، پھرایک دوسرے کو سلام کرتا ہےاور رضائے الٰہی کی خاطر اس سے مصافحہ کرتا ہےتو اللہ کریم ان کے جدا ہونے سے پہلے ان دونوں کی مغفرت فرمادیتا ہے۔([14])
حسنِ سلوک کی تعلیم:
ایک مرتبہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت براء بن عازب رضیَ اللہ عنہما سے پوچھا: اے براء! تم اپنے گھر والوں پر کیا خرچ کرتے ہو؟حضرت براء اپنے گھر والوں پر کافی خرچہ کرتے تھے، عرض کرنے لگے: یانبی اللہ! میں اس خرچ کو گنتا نہیں ہوں، یہ سن کر ارشاد فرمایا: تمہارا اپنے گھر والوں پر، بچوں پر اور اپنے خادم پر خرچ کرنا سب صدقہ ہے، اس لئے نہ ان پر احسان جتانا، نہ انہیں تکلیف دینا۔ ([15])
عاجزی:
جلیل القدر اور جنتی صحابی ہونے کے باوجود آپ پر عاجزی وانکسار ی غالب رہتی تھی، ایک مرتبہ کسی نے کہا: آپ کے لئے خوش خبری ہے کہ آپ نبیِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت سے مشرف ہوئے اور بیعت الرضوان میں بھی شریک ہو ئے، آپ نے ارشاد فرمایا: اے بھتیجے! تمہیں کیا معلوم کہ ہم نے بعد میں کیا کچھ کیا۔([16])
جہادو خدمات:
غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت براء رضیَ اللہ عنہ کم سن تھے اسی لئے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو روک دیا، سن 3 ہجری ماہِ شوال کے غزوۂ اُحد میں آپ شریک ہوئے اور ایک قول کے مطابق سن 5 ہجری غزوۂ خندق پہلی جنگ تھی جس میں آپ نے شرکت کی، ([17]) اس موقع پر آپ کی عمر 15 برس تھی ([18]) آپ نے14 یا 15 غزوات میں شرکت کی۔([19])
نبی آخر الزمان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اہلِ یمن کو دعوتِ اسلام دینے کےلئے حضرت خالد بن ولید رضیَ اللہ عنہ کو روانہ کیا تو آپ ان کے ساتھ ساتھ تھے، ([20])17 ہجری میں آپ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضیَ اللہ عنہ کی قیادت میں جنگِ تُسْتَر میں حصہ لیا اور فاتحین میں اپنا نام لکھوایا۔ ([21])
24 ہجری میں حضرت عثمان غنی رضیَ اللہ عنہ نے آپ کو ملک فارس کے شہر ”رَیّ“ پر حاکم مقرر کیا، ([22])ایک قول کے مطابق آپ ہی نے شہر ”رَیّ “کو فتح کیا ([23])آپ نے (قَزوِین کے مغرب میں )” اَبْھَر“ پر حملہ کیا اور اسے فتح کیا، پھر قَزوِین پر حملہ کرکے اسے اسلامی سلطنت کا حصہ بنایا پھر شہر زَنْجان کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرکےاپنی فتوحات کا دائرہ وسیع کرلیا۔ ([24])
36 ہجری میں جنگ جَمَل، 37 ہجری میں جنگ صِفّین اور 38 ہجری میں خارجیوں کے خلاف معرکۂ نَہْرَوا ن میں حضرت مولا علی رضیَ اللہ عنہ کے ساتھ ساتھ تھے۔([25])
مولا علی رضیَ اللہ عنہ نے آپ کو اہلِ نہروان (خارجیوں)کو درست راہ پر لانے کےلئے بھیجا آپ ان کو تین دن تک سمجھاتے رہے لیکن خارجیوں نے آپ کی بات نہ مانی اور برابر انکار کرتے رہے۔ ([26])آپ نے کوفہ میں سکونت اختیار فرمائی اور یہیں ایک گھر بنایا۔([27])
وفات وروایات:
حضرت مصعب بن زبیر رضیَ اللہ عنہما کے دورِ حکومت میں سن 71 یا 72 ہجری میں آپ نے وفات پائی بَوقتِ وفات عمر مبارک 80 سے اوپر تھی، ([28]) ایک قول کے مطابق مدینے لوٹ آئے تھے اور یہیں وفات پائی۔ ([29])آپ سے 305 احادیث روایت کی گئی ہیں، جن میں سے مُتَّفقَہ طور پر 22 احادیث بخاری ومسلم کی زینت ہیں، جبکہ انفرادی طور پر امام بخاری نے 15 احادیث اور امام مسلم نے 6 روایات لی ہیں۔ ([30])اللہ ہمیں بھی اپنے دین متین کی خوب خدمت کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments