وہ جنہیں رسول کریم ﷺ  نے اپنے سینے سے لگایا

وہ جنہیں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے سینے سے لگایا!

*مولانا ابومحمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025

اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمدِ عربی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ ہمارے لئے کامیابی کا زینہ ہے، جب ہم نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کے ساتھ انداز، شفقت و محبت اور ملنساری والا ملتا ہے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی غمی و خوشی میں شریک ہوتے، موقع کی مناسبت سے ان کی دلجوئی فرماتے، مدد فرماتے، تحائف سے نوازتے، سواری پر اپنے ساتھ سوار فرماتے، خبر گیری فرماتے، عیادت فرماتے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی میں مختلف مواقع پر مختلف صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو سینے سے لگانے کا ذکر بھی ملتا ہے، مثلاً رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے محبت کا اظہار فرماتے ہوئے کسی صحابی کو سینے سے لگایا، تو کسی کے اچھے جواب سے خوش ہوکر اسے اپنے سینے سے لگایا، تو کسی کو شفقت سے سینے لگایا، تو کسی کے آنے پر خوشی سے اُسے اپنے سینے سے لگایا۔ آیئے! جن صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سینے سے لگنے کا شرف حاصل ہوا ہے اُن میں سے چند کے محبت بھرے واقعات پڑھتے ہیں۔

خلفائے اَربعہ کو سینے سے لگایا: حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے ایک طویل روایت مروی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منبر پرتشریف فرما ہوکر صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہ کو چند نصیحتیں فرمائیں اور پھر  خلفائے اَربعہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروقِ اعظم، حضرت عثمانِ غنی اور حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہُ عنہم میں سے ہر ایک کو بُلا کر اپنے سینے سے لگایا اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ اور ہر ایک کے مقام و مرتبے کے مطابق ان کے فضائل بیان فرمائے۔ ([i])

امام حسن و امام حسین رضی اللہُ عنہما کو سینے سے لگایا: حضرت یعلیٰ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہما دوڑتے ہوئے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا: اولاد بخیل اور بُزدل بنا دینے والی ہے۔([ii])

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اولاد کو (بخیل اور بُزدل) فرمانا ان کی بُرائی کے لئے نہیں بلکہ انتہائی محبت کے اظہار کے لئے ہے یعنی اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بُزدل بن جانے پر مجبور کردیتی ہے۔([iii])

حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کو سینے سے لگایا: حضرت عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے اپنے سینے سے لگایا اور یہ دعا دی: اَللّٰهُمَّ عَلِّمْهُ الحِكْمَةَ یعنی اے اللہ! اسے حکمت کا علم عطا فرما۔([iv]) جبکہ ایک روایت میں ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہُ عنہ کو اپنے سینے سے لگا کر یہ دُعا دی: اَللّٰهُمَّ عَلِّمْهُ الكِتَابَ یعنی اے اللہ! اسے کتاب کا علم عطا فرما۔([v])

حضرت مفتی شریفُ الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اسی دُعاکی برکت ہے کہ حضرت اِبنِ عباس رضی اللہُ تعالیٰ عنہما کو وہ علم عطا ہوا کہ ان کو ”حِبْرِ اُمّت“، ”بَحرُالعلوم“، ”رئیسُ المفسرین“ (اور) ”ترجمانُ القرآن“ کہا جاتا ہے۔([vi])

حضرت ہالہ بن ابی ہالہ رضی اللہُ عنہ کو سینے سے لگایا: حضرت ہَالہ بن ابی ہالہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ وہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں اُس وقت حاضر ہوئے  جب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام فرما رہے تھے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیدار ہوئے تو حضرت ہَالہ رضی اللہُ عنہ کو اپنے سینے سے لگا لیا اور تین بار فرمایا: ہَالہ، ہَالہ، ہَالہ۔

حضرت امام ابوالقاسم سُلیمان بن احمد طبرانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت ہالہ رضی اللہُ عنہ سے ملاقات کرکے اس لئے اتنا خوش ہوئے کیونکہ حضرت ہالہ رضی اللہُ عنہ اُمُّ المؤمنین حضرت خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہُ عنہا کے قریبی رشتہ دار تھے۔([vii])

حضرت جعفر طیار رضی اللہُ عنہ کو سینے سے لگایا: حضرت جعفر طیار رضی اللہُ عنہ جب حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ رضی اللہُ عنہ کو اپنے سینے سے لگایا، آپ کی پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا: میں نہیں جانتا کہ میں خیبر کی فتح سے زیادہ خوش ہوا یا جعفر کے آنے سے۔([viii])

حضرت جعفر طیار رضی اللہُ عنہ کے بچوں کو سینے سے لگایا: حضرت جعفر طیار رضی اللہُ عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنتِ عُمَیس رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب جنگِ مَوتَہ میں حضرت جعفر طیار رضی اللہُ عنہ کی شہادت ہوئی تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے گھر تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا: اسماء! جعفر کے بچے کہاں ہیں؟ میں نے بچّوں کو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر کردیا، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اُن بچوں کو اپنے سینے سے لگالیا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔([ix])

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہما کو سینے سے لگایا: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہما (کسی سفر یا جہاد سے) مدینہ تشریف لائے تو اس وقت رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے گھر میں تشریف فرما تھے، حضرت زید رضی اللہُ عنہ نے دروازے پر دستک دی تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے ملنے تشریف لے گئے، انہیں اپنے سینے سے لگایا اور ان کا بوسہ لیا۔([x])

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خوشی میں کسی سے گلے ملنا سنّت ہے۔([xi])

حضرت زبیر بن عوام رضی اللہُ عنہ کو سینے سے لگایا: غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت زُبَیر بن عوام رضی اللہُ عنہ جب یاسر پہلوان کو واصلِ جہنم کرکے لوٹے تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خوشی سے آگے بڑھ کر آپ رضی اللہُ عنہ کو اپنے سینے سے لگایا، پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا: میرے چچا اور ماموں تم پر قربان ہوں۔([xii])

حضرت ابوذرغفاری رضی اللہُ عنہ کو سینے سے لگایا: حضرت ابوذر غفاری رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جب بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوتا تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیشہ مجھ سے مصافحہ فرماتے، حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک دن کسی کو مجھے بلانے بھیجا میں اس وقت گھر پر نہیں تھا، جب میں گھر آیا تو مجھے گھر والوں نے بتایا کہ آپ کو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بلایا تھا، میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تخت پر جلوہ فرما تھے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےمجھے  سینے سے لگا لیا۔([xiii])

حضرت عِکرمہ رضی اللہُ عنہ کو سینے سے لگایا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جب حضرت عِکرمہ بن ابو جہل رضی اللہُ عنہ کو اپنے پاس آتے دیکھا تو ان کے لئے کھڑے ہوگئے، ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ارشاد فرمایا:خوش آمدید اے ہجرت کرنے والے سوار۔([xiv])

اَنصاری صحابی کو نزع کی حالت میں سینے سے لگایا:حضرت سَہل بن سعد رضی اللہُ عنہسے روایت ہے کہ ایک نَوجوان اَنصاری صحابی رضی اللہُ عنہ پر دوزخ کا خَوف طاری ہوگیا اور وہ دوزخ کا ذکر سُن کر روتے تھے، اور اس خوف کی وجہ سے انہوں نے اپنے آپ کو گھر میں قید کر لیا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اُن صحابی کی اِس کیفیت کے بارے میں بتایا گیا تو حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُن کے پاس گھر پر آئے اور اُن کو اپنے سینے سے لگا لیا تو اُن صحابی کا اِنتِقال ہوگیا۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے فرمایا: اپنے ساتھی کے کفن و دفن کا اِنتِظام کرو، دوزخ کے خَوف نے اِس کا جِگر ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے۔([xv])

قارئینِ کرام! ان واقعات سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ صِرف عِیدَین (یعنی عیدُالفطر اور عیدالاضحیٰ) پر ہی نہیں بلکہ ہم بھی خوشی غمی موقع کی مناسبت سےایک دوسرے سے گلے مل کر دلجوئی کریں تاکہ آپس میں محبت کی فضا قائم ہو اور دلوں سے نفرتیں دور ہوں۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



([i])شرف المصطفیٰ، 6/30تا 32، حدیث:2527-الریاض النضرہ، 1/48تا50

([ii])مسند احمد، 29/104، حدیث:17562-مشکاۃ المصابیح، 2/171، حدیث:4692

([iii])مراٰۃُ المناجیح، 6/367

([iv])بخاری، 2/548، حدیث:3756

([v])بخاری، 1/44، حدیث: 75

([vi])نزہۃ القاری، 1/428

([vii])معجم اوسط، 3/37، حدیث:3794

([viii])سنن کبریٰ للبیہقی، 7/163، حدیث:13580

([ix])دیکھئے:طبقاتِ ابن سعد، 8/220

([x])دیکھئے: ترمذی، 4/335، حدیث: 2741

([xi])مراٰۃُ المناجیح، 6/359

([xii])دیکھئے: تاریخ ابن عساکر، 18/381

([xiii])دیکھئے: ابوداؤد، 4/453، حدیث:5214

([xiv])دیکھئے:معجم کبیر، 17/373، حدیث:1021

([xv])مستدرک للحاکم، 3/317، حدیث:3881


Share