روشن ستارے
حضرت ضِمام بن ثَعلبہ رضی اللہُ عنہ
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ نومبر 2024
صحابیِ رسول حضرت ضِمام بن ثَعلبہ رضی اللہُ عنہ عمدہ اوصاف کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سمجھدار بھی تھے رحمتِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تعریفی کلمات ادا کرکے آپ کی سمجھداری پر مُہر لگادی،([i]) آپ کوئی بات لگی لپٹی نہ رکھتے جو بات کرنی یا پوچھنی ہوتی تو صاف اور واضح الفاظ میں پوچھ لیتے، کلام مختصر اور جامع کرتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کی زبانِ حق سے یہ کلمات جاری ہوئے: میں نے حضرت ضمام بن ثعلبہ سے بڑھ کرمختصر اور بہترین انداز میں سوال کرنے والا کسی کو نہ پایا،([ii]) آپ رضی اللہُ عنہ حق کو قبول کرنے والے بھی تھے کہ جب حق واضح ہوجاتا تو اسے قبول کرنے میں تاخیر نہ کرتے، آپ امین بھی تھے جو باتیں رسولِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنیں وہی باتیں قوم تک پہنچائیں، آپ حوصلہ مند اور اصلاح کا جذبہ رکھنے والے مبلغ بھی تھے کہ قوم نے آپ کو ڈرایا دھمکایا لیکن آپ نے ان کی دھمکیوں کا خیال نہ کیا اور نیکی کی دعوت جاری رکھی یہاں تک کہ پورا قبیلہ مسلمان ہوگیا اور وہاں پرچمِ اسلام لہرانے لگا۔ برکتوں سے مالامال حضرت ضمام بن ثعلبہ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کا فرمان ہے: ہم نے کسی قوم کے قاصد کے بارے میں نہیں سنا کہ وہ حضرت ضمام بن ثعلبہ سے افضل ہو۔([iii]) ایک قول کے مطابق یوں فرمایا: ہم نے کسی قوم کے قاصد کے بارے میں نہیں سناکہ اس نے حضرت ضمام بن ثعلبہ کے بارے میں کوئی ناپسندیدہ بات کہی ہو۔([iv])
بارگاہِ رسالت میں: سن 9 ہجری میں([v]) قبیلہ بنو سعد نے حضرت ضمام بن ثعلبہ کو اپنا قاصد بناکر بارگاہِ رسالت میں بھیجا، آپ نے مسجدِ نبوی شریف کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھا کر رسی سے باندھا اور مسجد میں داخل ہوگئے، مالکِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت صحابَۂ کرام رضی اللہُ عنہم کے درمیان جلوہ فرماتھے([vi]) آپ نے پوچھا:حضرت عبد المطلب کےبیٹے کون ہیں؟ صحابَۂ کرام نے مختارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف اشارہ کرکے بتایا: یہ ٹیک لگائے ہوئے سرخ وسفید رنگت والے ہیں، آپ رضی اللہُ عنہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قریب گئے اور کہنے لگے: ([vii]) میں آپ سے کچھ سوالات کروں گا، لہجہ سخت ہو جائےگا آپ دل میں بُرا محسوس نہ کیجئے گا،سردارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میں دل میں بُرا محسوس نہیں کروں گا جو چاہے سوال کرلو! ([viii])
سوال: آسمان کو کس نے پیدا کیا؟ ارشاد فرمایا: اللہ نے! سوال: زمین کو کس نے پیدا کیا؟ فرمایا: اللہ نے! سوال: ان پہاڑوں کو کس نے کھڑا کیا اور ان میں نفع بخش پوشیدہ چیزیں کس نے رکھیں؟ فرمایا: اللہ نے!([ix]) سوال: میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو ہماری طرف رسول بناکر بھیجا ہے؟ فرمایا: ہاں! سوال: میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ اللہ کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کریں؟ فرمایا: ہاں!([x]) سوال: آپ کو آپ کے رب اور آپ سے پچھلوں کے رب کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا ہے؟ فرمایا: ہاں! سوال: میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم دن رات میں پانچ وقت کی نماز پڑھیں؟ فرمایا: ہاں!([xi]) سوال:میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم رمضان کے مہینے میں روزے رکھیں؟ فرمایا: ہاں!([xii]) سوال:میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ ہمارے مالداروں سے صدقہ لیں اور ہمارے غریب لوگوں میں اسے تقسیم کردیں؟ فرمایا: ہاں!([xiii]) سوال: میں اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں! کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم میں جو بیتُ اللہ کا حج کرنے کی طاقت رکھتا ہے وہ حج کرے؟ فرمایا: ہاں! ([xiv])آخر میں آپ رضی اللہُ عنہ کہنے لگے: میں آپ کے دین پر ایمان لاتا ہوں میں اپنی قوم بنو سعد کی طرف سے قاصد ہوں، میرا نام ضِمام بن ثَعلبہ ہے۔([xv]) ایک روایت میں ہے کہ سرورِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کے بارے میں جواب ارشاد فرمانے کے بعد اسلام میں حرام کردہ اشیاء کو بیان کیا([xvi]) تو آپ نے عرض کی:ان بری باتوں سے تو ہم پہلے ہی بچتے تھے،([xvii]) پھر کلمۂ شہادت پڑھ کر کہا: میں وہی کروں گا جس کا آپ نے مجھے حکم دیا ہےاور ان باتوں (کودوسروں کو بتانے) میں نہ کمی کروں گا اور نہ (اپنی طرف سے) کچھ اضافہ کروں گا،([xviii]) آپ جب واپس جانے لگے توجانِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: سمجھدار مرد ہے۔([xix]) ایک روایت کے مطابق یہ فرمایا: اگر اس دو زلفوں والے نے سچ کہا ہے تو جنت میں داخل ہوجائے گا۔([xx]) حضرت ضمام بن ثعلبہ اونٹ کے پاس آئے، اس کی رسی کھولی سوار ہوئے اور قوم کے پاس واپس آگئے۔([xxi])
قبیلہ واپسی ہوئی: قبیلہ پہنچے تو سب لوگ آپ کے قریب جمع ہوگئے اور پوچھنے لگے: اے ضمام! وہاں کیا ہوا؟ آپ نے قوم کے جھوٹے معبود لات و عُزّیٰ کو سخت جملے کہنے شروع کردئیے، یہ دیکھ کر قوم کہنے لگی: انہیں بُرا مت کہو! اپنے آپ کو برص، جذام اور جنون سے بچاؤ (کہیں یہ معبود بُرا کہنے کی وجہ سے تم کو ان بیماریوں میں مبتلا نہ کردیں)، آپ نے فرمایا: تمہارا بُرا ہو! تم صرف باطل پر ہو، اللہ کی قسم! یہ نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ کوئی فائدہ، بےشک اللہ پاک نے ایک رسول ہادیِ دو عالَم کو بھیجا ہے اور ایک دین کو لازم کردیا ہے میں تمہارے پاس اسی نبیِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دینی احکامات لایا ہوں۔([xxii]) اللہ پاک نے اپنے حبیبِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایک کتاب نازل کی ہے تم جن برائیوں میں مبتلا ہو آقائے دو عالَم تمہیں ان سے بچانا چاہتے ہیں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور میں تمہارے پاس ان ہی کی طرف سے وہ احکامات لایا ہوں جن کا انہوں نے حکم دیا ہےاور جن باتوں سے منع کیا ہے۔ راوی کہتے ہیں: اللہ کی قسم! اس دن کی شام گزرنےبھی نہ پائی تھی کہ ہر عورت اور مرد مسلمان ہوچکا تھا،([xxiii]) پھر ان لوگوں نے قبیلہ میں مساجد بنائیں اور نماز کے لئے اذانیں دینے لگے۔([xxiv]) جب کسی بات میں اختلاف ہوتا تو ایک دوسرے سے کہتے: اپنے قاصد (حضرت ضمام) کی بات کو مضبوطی سے تھامے رکھو۔([xxv]) حضرت ضِمام بن ثَعلبہ رضی اللہُ عنہ کی تاریخِ وفات کے بارے میں کتبِ تاریخ خاموش ہیں۔([xxvi])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments