
روشن ستارے
عطائے نبوی برائے مولا علی رضی اللہُ عنہ
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت مولا علی شیرِ خدا رضی اللہُ عنہ کو بارگاہِ رسالت سے یوں تو وقتاً فوقتاً کچھ نہ کچھ انعامات اور اشیاء ملتی رہیں، مگر سب سے بڑھ کر اور سب سے قیمتی انعام یہ رہا کہ دنیا ہی میں جنّت کی بشارت پائی اور جگر گوشۂ رسول حضرت بی بی فاطمہ بتول رضی اللہُ عنہا آپ کی زوجیت میں آئیں۔ اس مضمون میں آپ بارگاہِ رسالت سے مولا علی رضی اللہُ عنہ کو ملنے والی کچھ چیزوں کے بارے میں پڑھیں گے۔
کبھی تلوار ذُوالفِقار عطا کی: ایک موقع پر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے آپ کو اپنی زِرہ پہنائی، اپنا عمامہ باندھا اور اپنی تلوار ذُوالفقار عطا فرمائی۔([1])
کبھی جھنڈا عطا کیا: سِن 3 ہجری ماہِ شوال جنگِ اُحد میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت مُصْعب بن عمیر رضی اللہُ عنہ کے پاس تھا اُن کی شہادت کے بعد نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ جھنڈا حضرت علی رضی اللہُ عنہ کے حوالے کردیا۔([2]) ایک قول کے مطابق غزوۂ بدر میں بھی پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مہاجرین کا جھنڈا مولا علی رضی اللہُ عنہ کو دیا تھا اس وقت آپ کی عمر بیس سال تھی۔([3]) غزوۂ خیبر میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کئی صحابہ کو خیبر کا قلعہ فتح کرنے کےلئے بھیجا مگرکوشش کے باوجود قلعہ فتح نہ ہوپایا، آخر کار رسول ِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کل میں یہ جھنڈا اس شخص کے ہاتھ میں دوں گا جو اللہ اور اس کےرسول سے محبت کرتا ہے،اللہ اس کے ہاتھ سے قلعہ فتح کروائے گا، حضرت مولا علی رضی اللہُ عنہا س وقت آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا تھے پھر (اگلے دن) رسولِ کریم نے آپ کو بلوایا اور آپ کی آنکھوں میں اپنا لعابِ دہن لگایا پھر جھنڈے کو تین مرتبہ ہلایا اور آپ کو عطا کیا، پھر تاریخ میں ایک روشن باب کا اضافہ ہوا اور خیبر کا قلعہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوگیا۔([4]) ایک روایت کے مطابق حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جب بھی جنگ پر روانہ فرمایا تو لشکرِ اسلام کا جھنڈا آپ کو عطا فرمایا۔([5])
کبھی نعلین ٹھیک کرنے کےلئے دی:ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نعلینِ مبارکہ کا تسمہ ٹوٹ گیا، حضرت علی رضی اللہُ عنہ اس وقت اپنے گھر میں تھے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی نعلینِ مبارک آپ کو دی تاکہ وہ نعلینِ مبارکہ کا تسمہ ٹھیک کردیں۔([6]) ایک بار رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے گروہِ قریش! تم (ناپسندیدہ کاموں سے) ضرور باز آجاؤگے یا پھر اللہ تم پر ایسا شخص بھیجے گا جو دین کی وجہ سے تمہاری گردنوں کو مارے گا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ! کیا وہ میں ہوں؟ فرمایا: نہیں! حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یَارسولَ اللہ! کیا وہ میں ہوں؟ فرمایا: نہیں!بلکہ وہ نعلین گانٹھنے والا ہے، اس وقت نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی نعلِ مبارک مولا علی رضیَ اللہ عنہ کو دی ہوئی تھی اور مولا علی نعلِ مبارک گانٹھ رہے تھے۔([7])
کبھی غلام تحفہ میں دیا: ایک مرتبہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت بی بی فاطمہ اور مولا علی رضیَ اللہ عنہ ما کو ایک غلام تحفے میں دیا اور فرمایا: اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا میں نے اسے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔([8])
کبھی نیزہ عطا کیا: نجاشی بادشاہ نے بارگاہِ رسالت میں تین نیزے (یا عصا) بھیجے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک اپنے لئے رکھ لیا جبکہ دوسرا حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کو اور تیسرا حضرت مولا علی رضیَ اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔([9])
کبھی کنگھی عطا فرمائی: بارگاہِ رسالت میں ایک مرتبہ دو کنگھیاں پیش کی گئیں تو رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان میں سےایک حضرت زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہ کو اور دوسری کنگھی مولا علی رضیَ اللہ عنہ کو دی۔([10])
کبھی یاقوت کندہ کرنے کے لئے دیا: ایک مرتبہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مولاعلی رضی اللہُ عنہ کو یاقوت کا ایک ٹکڑا دیا اور اس پر ”لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ“ نقش کروانے کا حکم دیا آپ نے ایسا ہی کیا۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یاقوت دیکھ کر پوچھا: تم نےالفاظ ”محمد رسولُ اللہ “ کو مزید کیوں بڑھایا؟ آپ نے عرض کی: آپ نے جس بات کا حکم دیا تھا میں نے وہی کیا ہے، اتنے میں جبرائیل علیہ السّلام حاضر ہوکر عرض گزار ہوئے: بے شک! اللہ کریم آپ سے ارشاد فرماتا ہے: آپ ہم سے محبت کرتے ہیں لہٰذا (اس یاقوت پر) ہمارا نام لکھوایا اور ہم بھی آپ سے محبت کرتے ہیں لہٰذا ہم نے آپ کا نام لکھ دیا۔([11])
کبھی لوگوں کی امانتیں رکھوائیں: ہجرت سے پہلے مکہ کے لوگ اپنی امانتیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس رکھوایا کرتے تھے، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مکہ سے مدینے کی طرف ہجرت فرمائی تو وہ امانتیں حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو سپرد کردیں کہ وہ مکہ میں ٹھہر کر لوگوں کی امانتیں ان تک پہنچادیں پھر ہجرت کرکے مدینے پہنچ جائیں،آپ نے ایسا ہی کیا۔([12])
کبھی درہم عطا کئے: ایک مرتبہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس دس درہم تھے، رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چار درہم حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو دئیے (اور فرمایا: میرے لئے قمیص خرید لاؤ) آپ رضیَ اللہ عنہ چار درہم کی قمیص خرید لائے، ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کی: یَارسولَ اللہ! میرے پاس کوئی قمیص نہیں ہے،نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ قمیص اسے عطا کردی، پھر مولا علی رضی اللہُ عنہ کو دوبارہ چار درہم عطا فرمائے تو انہوں نے نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کےلئے ایک اور قمیص خرید لی۔([13])
کبھی دیت ادا کرنے کے لئے رقم دی: ایک موقع پر کسی مسلمان سپہ سالار کی غلط فہمی کی بنا پر بنی جَذِیْمَہ کےکچھ مسلمان شہید ہوگئے تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو رقم سپرد کی اور فرمایا: جو نقصان ہوا ہے، تم اس کی دیت ادا کردو، حضرت علی رضی اللہُ عنہ وہ رقم لے کر بنی جَذِیمہ پہنچے اور رقم انہیں دی لیکن پورا حق ادا نہ ہوپایا،آپ نے حضرت رافع رضی اللہُ عنہ کو بارگاہِ رسالت میں بھیج کر مزید رقم منگوائی تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مزید رقم حضرت علی رضی اللہُ عنہ کو بھجوادی۔([14])
وفات ووصیت: سِن 40 ہجری 17 رمضان کو ابنِ مُلْجم خارجی نے کوفہ میں آپ پر قاتلانہ حملہ کیا، زہر میں بجھی ہوئی تلوارکا وار آپ کے دماغ تک پہنچ گیا، آپ کے پاس نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بچی ہوئی خوشبو موجود تھی ایک وصیت یہ کی کہ مجھے (رسولِ کریم کی) وہی خوشبو لگاکر دفن کیا جائے۔ تین رات کے بعد (21 رمضان کو) آپ نے شہادت پائی۔([15])
بعدِ خُلفائے ثَلاثہ سب صَحابہ سے بڑا
آپ کو رُتبہ ملا مولیٰ علی مشکلکُشا ([16])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments