
روشن ستارے
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ
*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025
عہدِ رسالت میں ایک صحابیِ رسول رضی اللہ عنہ اپنی والدہ ماجدہ سے بہت محبت کیا کرتے تھے، سن 5 ہجری ماہ ربیعُ الاول غزوۂ دُوْمَۃ الْجَنْدَل کے موقع پر ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا، غزوہ سے واپسی پر صحابیِ رسول کو ایک سعادت مند بیٹے کی طرح والدہ ماجدہ کے ایصالِ ثواب کے لئے فکر دامن گیر ہوگئی چنانچہ بارگاہِ رسالت میں یوں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! میری والدہ انتقال کر گئی ہیں، (ان کے لئے) کون سا صدقہ افضل ہے؟ارشاد فرمایا: پانی۔ تو صحابی رسول رضی اللہ عنہ نے ایک کنواں کھدوایا اور کہا: یہ اُمّ ِسعد کے لئے ہے۔ ([1])
پیارے اسلامی بھائیو! اپنی والدہ ماجدہ سے بہت محبت کرنے والے اور ان کے نامۂ اعمال میں ثواب کا عظیم ذخیرہ پہنچانے والے سعادت مند بیٹے مشہور صحابی رسول حضرت سعد بن عُبادَہ رضی اللہ عنہ تھے۔
قبولِ اسلام: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو ثابت اور ابو قیس ہے۔ آپ قبیلۂ خَزْرَج کے سردار اور انصار صحابۂ کرام میں بلند مقام و وجاہت رکھا کرتے تھے۔([2])آپ رضی اللہ عنہ 70 یا 72 افراد کی اس خوش نصیب جماعت میں شامل ہوئے جنہوں نے اعلانِ نبوت کے تیرہویں سال موسم ِحج میں مِنٰی کی گھاٹی میں رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دست ِ اقدس پر بیعت کرنے کی سعادت پائی اور اپنا نام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھوایا۔([3])قریش کو اس بیعت کا حال معلوم ہوا تووہ آپے سے باہر ہوگئے اور بیعت کرنے والوں کو گرفتار کرنا چاہا مگر آپ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی اور کو پکڑ نہ سکے۔ کفار ِبد اطوار نے پہلے تو کجاوہ کی رسی لے کر آپ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کو گردن سے باندھا پھر بالوں سے کھینچتے ہوئے اورشدید زَدوکوب کرتے ہوئے مکہ لائے اور قید کردیا، جب جُبَیْر بن مَطْعَم اور حارث بن حَرب بن امیہ کو پتا چلا تو انہوں نے قریش کو سمجھایا کہ انہیں فوراً چھوڑ دو ورنہ تمہاری ملک ِشام کی تجارت خطرہ میں پڑجائے گی۔ یہ سُن کر قریش نے آپ کو قید سے رہا کردیا، یوں آپ رضی اللہ عنہ بخیر وعافیت مدینہ پہنچ گئے۔([4])
اوصافِ مبارکہ: زمانہ ٔجاہلیت میں عربی خط و کتابت کرنے والوں کی تعداد نہایت کم تھی لیکن آپ رضی اللہ عنہ اس دور میں بھی عربی لکھا کرتے تھے، تیر اندازی میں اپنی مثال آپ تھے جبکہ تیراکی (Swimming) میں بے مثال تھے انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ رضی اللہ عنہ کو کامل یعنی ”باکمال“ کہا جانے لگا۔([5])
کمال کی مہمان نوازی: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بےحد کریمُ النفس اور خوش اخلاق تھے، سخاوت اور مہمان نوازی کا وصف تو کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جو والد اوردادا کی جانب سے وراثت میں ملا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ کا مکان بلند جگہ پر واقع تھا جہاں سے روزانہ ندا کی جاتی: جو گھی اور گوشت کو مرغوب رکھتا ہو وہ سعد بن عبادہ کے گھر آجائے۔([6]) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اصحاب ِصُفَّہ میں سے ایک ایک، دو دو کو اپنے ساتھ لے جاتے جبکہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بعض اوقات اپنے ساتھ 80اصحاب کو لے جاتے، انہیں اپنے ہاں ٹھہراتے اور مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کیا کرتے تھے۔([7])
دعا: آپ کی دعاؤں میں یہ دعا بھی شامل ہوا کرتی تھی: اے اللہ ! مجھے دولت عطا فرما،کیونکہ مال ہی کے ذریعے کام صحیح اور درست ہوپاتے ہیں۔([8])
بارگاہِ رسالت میں کھانا پیش کرتے: جب تسکین عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینے میں جلوہ گر ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ روزانہ ایک بڑے برتن میں روٹی کے ٹکڑے کرتے اور ان میں کبھی سرکہ اور زیتون تو کبھی دودھ یا پھر گھی ملادیتے جبکہ اکثرو بیشتر گوشت کے شوربے میں ثرید بناکر بارگاہِ رسالت میں پیش کیا کرتے تھے۔([9])
برکت لینے کا نرالہ انداز: ایک مرتبہ رحمت ِعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لائے اور سلام کیا تو آپ نے ہلکی آوازمیں سلام کا جواب عرض کیا، جانِ بزم عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دوبارہ سلام کیا تو آپ نے دوبارہ دھیمے لہجے میں جواب عرض کیا، گھر والوں نے پوچھا: آپ بلند آواز سے جواب دے کرمہربان عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہمارے گھر میں قدم رنجہ فرمانے کے لئے کیوں عرض نہیں کررہے؟ آپ نے فرمایا: خاموش رہو تاکہ سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف سے ہمیں زیادہ سے زیادہ سلام نصیب ہوجائے۔ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تیسری مرتبہ سلام ارشاد فرمایا تو آپ نے پھر دھیرے سے جواب دیا، تین دفعہ سلام فرمانے کے بعدنورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم واپس ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ پیچھے بھاگے اور عرض گزار ہوئے: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم !ہم گھر ہی پر تھے اورسلام کا جواب آہستہ آواز میں دے رہے تھے تاکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار ہمارے لئے دعائے سلامتی فرماتے رہیں، پھر بڑی تعظیم کے ساتھ جانِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے ساتھ گھر لائے اورغسل کے لئے پانی کا انتظام کیا۔ اس کے بعد زعفران سے رنگی چادرپیش کی تو سرورِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے لپیٹ لیا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھادئیے: اے اللہ ! سعد بن عبادہ کی آل پر اپنی مہربانی اور رحمت نازل فرما، جب سردار دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کھانا تناول فرمانے کے بعد واپس ہونے لگے تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے گدھے پر پالان رکھا اور اسے بطورِ سواری پیش کردیا ۔([10])
عَلم بَردار: آقائے دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عام طور پر جنگوں میں دو جھنڈے رکھا کرتے تھے مہاجرین کا جھنڈا حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کے پاس ہوتا جبکہ انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے سنبھالا ہوتا تھا۔ ([11])
وصال مبارک:رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے ملک ِشام میں سکونت کوپسند کیا اور پھر آپ رضی اللہ عنہ نے سن 15ہجری میں سرزمینِ شام کے علاقہ ”حَوْران“ میں رہتے ہوئے اس سرائے فانی سے دارُ البَقاء کی جانب کوچ فرمالیا۔ ([12])
اللہ پاک کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔
اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی
Comments