صِدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے آنسو

روشن ستارے

صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ کے آنسو

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ دسمبر 2024

اَنبیا و رُسُل علیہمُ الصّلوٰۃ والسّلام کے بعد سب سے افضل، مسلمانوں کے پہلےخلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ کا وصال 22جُمادَی الاُخریٰ 13ہجری مطابق 22اگست 634عیسوی بروز پیر کو ہوا، آپ جہاں بےشمار عمدہ اوصاف کے مالک تھے وہیں نرم دل بھی تھے۔ اس ضمن میں 6 واقعات ملاحظہ کیجئے:

(1) تلاوت سن کر آبدیدہ ہوگئے

 جب سورت (اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا)  نازل ہوئی تو سورت سُن کر صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا: اے ابو بکر کیوں رو رہے ہو؟ عرض کی: یارسولَ اللہ! اس سورت نے مجھے رُلادیا ہے۔([i])

مِرے اَشک بہتے رہیں کاش ہر دم

ترے خوف سے یاخدا یاالٰہی([ii])

(2)ہر نعمت پر پوچھ گچھ ہونے کے ڈر نے رُلادیا

ایک دن نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھوک کی شدت کی وجہ سےاپنے پیٹ پر کپڑا باندھا ہوا تھا اسی حالت میں باہر تشریف لائے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ اسی طرف آ رہے تھے، آپ رضی اللہُ عنہ نے آگے بڑھ کرحبیبِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سلام کیا، حبیبِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ابوبکر! کس وجہ سے باہر آئے ہو؟ آپ نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا، حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود ارشاد فرمایا: اے ابوبکر! جس وجہ سے تم باہر آئے ہو میں بھی اسی وجہ سے باہر آیا ہوں، پھر یہ دونوں حضرات چلتے ہوئےایک دیوار کے پاس پہنچے جس کی دوسری جانب کھجوروں کا باغ تھا وہاں کچی سبز کھجوریں گری ہوئی تھیں جنہیں بھیڑ بکریوں نے بھی نہ کھایا تھا، ان دونوں مقدس حضرات نے ان کھجوروں کو کھایا([iii]) اور پانی پی لیا، ابھی بھوک ختم نہ ہوئی تھی کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن اس کھانے کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، یہ سُن کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ زار وقطار روئے پھر عرض کی:یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! کیا مجھ سے ان کچی اور ہری کھجوروں کے بارے میں بھی پوچھ گچھ کی جائے گی جن کو بھیڑ بکری بھی کھانا پسند نہیں کرتے؟ ارشاد فرمایا: ہاں! یہ بھی اللہ کریم کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔([iv])

تِرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ

میں تھر تھر رہوں کانپتا یاالٰہی([v])

(3)شفقتِ مصطفےٰ دیکھ کر اشکبار ہوگئے

ایک مرتبہ نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کسی کے مال نے مجھے کبھی بھی اتنا نفع نہیں دیا جتنا نفع مجھے ابو بکر کےمال نے دیا ہے، یہ کلمات سن کر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ رونے لگے اور عرض کرنے لگے: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! میں اور میرا مال آپ کا ہی ہے ایک روایت کے مطابق روتے ہوئے یہ کلمات عرض کئے:اللہ نے مجھے جو ہدایت اور بلندی عطا فرمائی ہے وہ آپ ہی کے ذریعے اور وسیلے سے ملی ہے۔([vi])

لُٹایا راہِ حق میں گھر کئی بار اس محبت سے

کہ لٹ لٹ کر حسن ؔ  گھر بن گیا صدیق اکبر کا([vii])

(4)سفید بالوں کو دیکھ کر آنسو گرنےلگے

ایک مرتبہ رسولِ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کاشانۂ اقدس میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہما تشریف فرما تھے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک داڑھی میں سفید بالوں کو دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق کے آنسو نکل آئے پھر عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! بڑھاپا آپ کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ([viii])ہاں ایسا ہی ہے! سُورَۂ ھُود اور اس جیسی سُورَۂ وَاقِعَہ، سُورَۂ قَارِعَۃ، سُورَۂ تَکْوِیْر اور سُورَۂ مَعَارِج نے مجھے بوڑھا کردیا ہے۔ ([ix])

جو کوئی ان کے غم میں آنسو بہا رہے ہیں

جینے کا لُطف ایسے عُشّاق پا رہے ہیں([x])

(5)جسمِ اقدس پر نشانات دیکھ کرآنسو ٹپکنے لگے

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس (سخت) گھاس (کے ریشوں) سے بنی ہوئی ایک چار پائی تھی جس پر ایک سیاہ چادر بچھی رہتی تھی ایک مرتبہ حبیبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پرآرام کررہے تھے، اتنے میں حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہُ عنہما حاضر ہوئے، دونوں حضرات کو دیکھ کر نبیِّ کریم سیدھے بیٹھ گئے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پہلو مبارک پر (بستر کی کھردراہٹ کی وجہ سے) نشانات بن گئے تھے یہ دیکھ کر دونوں حضرات رونے لگے، مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پوچھا: تم دونوں کیوں رو رہے ہو؟ عرض کی: یارسولَ اللہ! رونے کی وجہ یہ ہے کہ اس بستر کے کھردرا ہونے کی وجہ سے آپ کے پہلو مبارک پر نشان بن گئے اور قیصر و کسریٰ ([xi]) نرم ملائم ریشم و دیباج کے بستر پر آرام کرتے ہیں۔ ارشاد فرمایا: قیصر وکِسریٰ کا انجام و بدلہ آگ ہے اور اس بستر کا بدلہ جنت ہے۔([xii])

ہے چٹائی کا بِچھونا کبھی خاک ہی پہ سونا

کبھی ہاتھ کا سِرہانا مَدنی مدینے والے

تِری سَادَگی پہ لاکھوں تِری عاجِزی پہ لاکھوں

ہوں سلام عاجِزانہ مَدنی مدینے والے([xiii])

(6)حضرت بلال کی بات سن کر آنکھیں بھر آئیں

حضرت ابوبکرصدیق رضیَ اللہ عنہ نےحضرت بلال رضیَ اللہ عنہ کوپانچ اوقیہ (یعنی دو سو درہم کے بدلے) ایک کافر امیہ بن خلف سے خرید کر آزاد کردیا تھا، خلافتِ صدیقی میں حضرت بلال شام روانہ ہونے لگے تو آپ نے حضرت بلال رضی اللہُ عنہ کو روکنا چاہا لیکن حضرت بلال نے عرض کی: اگر آپ نے مجھے اس لئے آزاد کیا تھا کہ آپ مجھے اپنا خزانچی ومنتظم بنائیں گے تو بنالیں، اور اگر اللہ پاک کیلئے آزاد کیا تھا تو مجھے جانےدیجئے کہ میں اللہ پاک کے لئے عمل کرتا رہوں، یہ سن کر آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈباگئیں، پھر فرمانے لگے: میں نے تمہیں (خزانچی بنانے کے لئے آزاد نہیں کیا تھا) بلکہ رضا ئے الٰہی کے لئے آزاد کیا تھا۔([xiv])

نہ پوچھو کہ بندے تو کیا چاہتا ہے

فقط ایک تیری رضا چاہتا ہے([xv])

اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([i])موسوعہ ابن ابی دنیا، الرقۃ والبکاء، 3/184

([ii])وسائل بخشش،ص105

([iii])یادرکھیے کہ کسی کی یوں گری ہوئی کھجوریں یا دیگر چیزیں اٹھانے کی ہر جگہ اجازت نہیں ہوتی، جس جگہ یہ عرف ہو کہ درختوں سے گرے ہوئے پھل وغیرہ جانور کھالیں یا کوئی اٹھا لے تو مالک کوئی اعتراض نہیں کرتا تو اجازت ہے، وگرنہ پوچھنا لازمی ہے، اس روایت میں ذکر کردہ باغ کی یقیناً یہی صورت ہوگی کہ گری ہوئی کھجوریں کوئی بھی اٹھا سکتاہے۔

([iv])الزہد للمعافی الموصلی، ص314، رقم 241

([v])وسائل بخشش،ص105

([vi])فضائل الصحابۃ لاحمد، ص78، حدیث:25، 27

([vii])ذوق نعت،ص77

([viii])غالبا ً یہ اس وجہ سے فرمایا کہ ان سورتوں میں قیامت کے احوال، ہولناکیاں، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے، جزا اور حساب کا بیان ہے۔

([ix])مختصر قیام اللیل للمروزی، ص144

([x])وسائل بخشش،ص296

([xi])اس زمانے میں روم کے بادشاہ کا لقب ”قیصر“ اور فارس (ایران) کے بادشاہ کالقب ”کِسریٰ “ ہوا کرتا تھا۔

([xii])صحیح ابن حبان، 2/44، حدیث:702- معجم اوسط، 4/356، حدیث: 6228

([xiii])وسائل بخشش،ص426

([xiv])مصنف ابن ابی شیبہ، 17/251، حدیث: 33002

([xv])قبالۂ بخشش،ص291


Share