حضرت سالم رضی اللہ عنہما  مولٰی ابی حذیفہ

روشن ستارے

حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہُ عنہما

*مولانا عدنان احمد عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025

ایک مرتبہ مسلمانوں کے دوسرےخلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے اپنے رُفقا سے فرمایا: کسی چیز کی تمنا کرو۔ ایک شخص نے کہا: اے کاش! یہ گھر سونے سے بھرا ہوتا اور میں اسے اللہ پاک کی راہ میں خرچ کر دیتا۔ فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:تمنا کرو۔ ایک شخص نے کہا: کاش! یہ گھر موتیوں، زَبَرجَد اور جواہرات سے بھرا ہوتا اور میں اسے راہ ِخدا میں صدقہ وخیرات کردیتا۔ فرمایا: تمنا کرو۔ لوگوں نے عرض کی: یاامیرالمؤمنین ! ہمیں نہیں معلوم (کہ ہم کیا تمنا کریں)؟ فاروقِ اعظم نے فرمایا: میری تمناہے کہ یہ گھر حضرت ابو عبیدہ بن جَرَّاح،  معاذ بن جبل اور سالِم مَوْلیٰ اَبِی حُذیفہ رضی اللہُ عنہم جیسے لوگوں سے بھرا ہوتا۔([i]) پیارے اسلامی بھائیو! فاروق اعظم رضی اللہُ عنہ حضرت سالِم کی بہت زیادہ تعریف کیا کرتے تھے([ii]) کیونکہ آپ بیک وقت کئی خصوصیات رکھتے تھے آپ حافظ بھی تھے اور قاری بھی، امام بھی تھے اور محبتِ الٰہی سے سرشار بھی، مفسرِ قراٰن بھی تھے اور مخلص عبادت گزاربھی۔([iii])

انمول سیرت:حضرت سالِم رضی اللہُ عنہ سابق الاسلام ہیں، نسل کے اعتبار سے فارسی (ایرانی) تھے بچپن میں غلام بنالئے گئے حضرت ابو حذیفہ کی زوجہ حضرت ثُبَیْتَہ انصاریہ رضی اللہُ عنہا نے آپ کو بچپن میں خرید کر آزاد کردیا([iv]) بعد ازاں حضرت ابوحذیفہ رضی اللہُ عنہ نے آپ کو اپنا منہ بولا بیٹا بنالیا، اسی وجہ سے آپ کو مہاجرین و انصار دونوں میں شمار کیا جاتا ہے۔([v]) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہُ عنہ نے اپنی بھتیجی کی شادی آپ سے کردی([vi]) آپ نے مشرکینِ مکہ کے ظلم وستم برداشت کئے([vii]) پھر اپنے مولیٰ حضرت ابو حذیفہ کے ساتھ مدینے کی طرف ہجرت کی اور حضرت عَبّاد بن بِشْر کے گھر قیام کیا ([viii]) آپ کا شمار اہلِ صفہ میں بھی ہوتا ہے۔([ix])

فضائل: آپ رضی اللہُ عنہ کا دل رَبِّ کریم کی محبت سے لبریز تھا حدیثِ مبارکہ میں ہے : جو ایسے شخص کی طرف دیکھنا چاہے جسےاپنے رب سےخلوصِ دل کے ساتھ محبت ہے تو اسے چاہئے کہ حضرت سالم کی طرف دیکھے۔([x]) نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہجرت سے پہلے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم ہجرت کرکے مقام قباء میں اترتے تو حضرت سالم انہیں نمازیں پڑھایا کرتے۔([xi]) آپ نے غزوۂ بدر اور تمام غزوات میں شرکت کی۔ ([xii])

بارگاہِ رسالت میں:ایک بار اہلِ مدینہ میں کچھ خوف پھیل گیا، حضرت عَمْرو بن عاص اور حضرت سالم رضی اللہُ عنہما مسجد میں تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم باہر تشریف لائے اور خطبہ فرمایا:اے لوگو! کیوں نہ ہوا کہ تم خوف میں ا ورسول کی طرف التجالاتے، تم نے ایسا کیوں نہ کیا جیسا ان دونوں ایمان والے مردوں نے کیا۔([xiii]) ایک بار حضرت عُبادَہ بن صامِت نے تنہائی میں بارگاہِ رسالت میں عرض کی: آپ کو صحابہ میں کون زیادہ محبوب ہیں تاکہ میں ان سے محبت کروں؟ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے 20 نام بیان کئے جن میں ایک نام حضرت سالم کا بھی تھا۔([xiv])

بہترین قاری:آپ کا شمار بڑے قاری صحابہ میں ہوتا ہے حدیثِ مبارکہ میں ہے: قراٰن چار لوگوں سے پڑھواؤ، پھر ان میں ایک نام حضرت سالم کا لیا۔([xv]) حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ میں ایک رات رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس دیر سے پہنچی تو مجھ سے دریافت کیا : تم کہاں تھیں؟ عرض کی: میں نے ایک شخص کو مسجد میں (بڑے پیارے انداز میں ) قراءت کرتے ہوئے سنا، اس جیسی تلاوت ا س سے پہلے میں نے کبھی نہیں سنی، یہ سُن کر محبوبِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسجد کی طرف چل دئیے میں بھی پیچھے پیچھے چلنے لگی، وہاں پہنچ کر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے پوچھا: کیا تم جانتی ہو یہ تلاوت کرنے والا کون ہے؟ عرض کی: نہیں! فرمایا:یہ سالم مولیٰ ابی حُذیفہ ہے، پھر کہا: اللہ کریم کا شکر ہے جس نے میری امت میں اس جیسا (خوش الحان قاری اور بہترین) فرد پیدا کیا۔([xvi])

شہادت :سن 12 ہجری جنگِ یمامہ میں نبوت کے جھوٹے دعویدار مُسیْلِمہ کذّاب کی سرکوبی کےلئے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے مسلمانوں کا لشکر روانہ کیا، جنگ کادن بڑا آزمائش والا تھا دشمن نے اس زور سے حملہ کیا کہ مسلمانوں کے قدم پیچھے ہتنے لگےیہ دیکھ کر حضرت سالم رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: ہم دورِ نبوی میں تَو اس طرح نہیں کرتے تھے پھر آپ نے نصف پنڈلی تک ایک گڑھا کھودا اور اس میں کھڑے ہوگئے (کہ قدم پیچھے نہ ہٹاسکوں ) اور نہایت جانبازی سے لڑنے لگےاس وقت آپ کے ہاتھ میں مہاجرین کا جھنڈا تھا۔([xvii]) جب آپ نے جھنڈا لیا تھا تو کچھ مجاہدین نے کہا: ہمیں دھڑکا لگا رہے گا کہ ہم آپ کی وجہ سے کہیں کسی مشکل میں نہ پڑجائیں، فرمایا: اگر میری وجہ سے تم کسی مشکل میں پھنسو تو میں بُراحافظِ قراٰن ہوں گا (یعنی میری طرف سے تمہیں کوئی مشکل نہ پہنچے گی)۔ ([xviii]) آپ رضی اللہُ عنہ نہایت جانبازی سے ختمِ نبوت کے منکر دشمنوں کا مقابلہ کرنے لگے، جھنڈا آپ کے دائیں ہاتھ میں تھا جب لڑتے لڑتے سیدھا ہاتھ کٹ گیا تو آپ نے جھنڈے کو بائیں ہاتھ سے پکڑ لیا دشمن نے وار کرکےبائیں ہاتھ کو بھی کاٹ دیا، آپ نے جھنڈے کو گلے سےچمٹائے رکھا اور یہ آیت پڑھنا شروع کردی: ترجَمۂ  کنز الایمان: اور محمدتو ایک رسول ہیں ان سے پہلے اور رسول ہوچکے تو کیا اگر وہ انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم اُلٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔([xix]) آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر نیچے گرپڑے([xx]) بدری صحابی حضرت یزید بن قیس رضی اللہُ عنہ نے آگے بڑھ کر جھنڈا تھام لیا۔([xxi]) حضرت ابو حذیفہ رضی اللہُ عنہ بھی اس جنگ میں شہید ہوئے جب آپ دونوں کی نعش مبارک کو تلاش کیا گیا تودونوں کے جسم ایک دوسرے کے اس طرح قریب تھےکہ آپ کے قدم ان کے سر کے پاس اور ان کے قدم آپ کے سر کے پاس تھے۔([xxii]) شہادت سے پہلے آپ نے حضرت ابوحذیفہ رضی اللہُ عنہ  کے پہلو میں دفنانے کی وصیت کی۔([xxiii]) اللہ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* سینیئر استاذ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ، کراچی



([i])مستدرک، 4/244، حدیث:5055

([ii])تہذیب الاسماء، 1/206

([iii])حلیۃ الاولیاء، 1/232

([iv])اعلام للزرکلی،3/73-اسد الغابہ، 2/366

([v])اسد الغابہ، 2/366

([vi])اعلام للزرکلی،3/73

([vii])فتح الباری لابن حجر، 13/268، تحت الحدیث: 6940

([viii])طبقات ابن سعد، 3/62

([ix])حلیۃ الاولیاء، 1/454

([x])قوت القلوب، 2/85

([xi])طبقات ابن سعد، 3/64

([xii])البدایۃ والنہایۃ، 5/44

([xiii])مسند احمد، 6/242، حدیث:17826ملخصاً

([xiv])مجمع الزوائد، 9/247، حدیث: 14939

([xv])حلیۃ الاولیاء، 1/232

([xvi])مسند احمد، 9/515، حدیث: 25375-سیر السلف الصالحین، ص200

([xvii])طبقات ابن سعد، 3/65-الاکتفاء للحمیری، 2/123

([xviii])اسد الغابہ 2/342

([xix])پ4، اٰل عمرٰن:144

([xx])اسد الغابہ، 2/368-سیر السلف الصالحین، ص 200

([xxi])الاکتفاء للحمیری، 2/123

([xxii])طبقات ابن سعد، 3/65

([xxiii])اعلام للزرکلی،3/73


Share