راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب کے قرآنی اسالیب(قسط:01)

تفسیر قراٰنِ کریم

راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب کے قرآنی اسالیب (قسط:01)

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2024ء

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

(مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗۤ اَضْعَافًا كَثِیْرَةًؕ-وَ اللّٰهُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُۜطُ۪-وَ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(۲۴۵))

ترجَمۂ  کنزالعرفان: ہے کوئی جو اللہ کواچھا قرض دے تو اللہ اس کے لئے اس قرض کو بہت گنا بڑھا دے اور اللہ تنگی دیتا ہے اور وسعت دیتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (پ 2، البقرۃ:245)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر:راہ ِ خدا میں اِخلاص کے ساتھ خرچ کرنا بہت محبوب عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسے خدا کو قرض دینے سے تعبیر فرمایا،یہ اللہ تعالیٰ کا کمال درجے کا لطف و کرم ہے، کیونکہ مخلوق کی جان و مال سب کا خالق و مالک خدا ہے اور بندہ اُس کی عطا سے صرف مجازی مالک ہے، مگر اس کے باوجود فرمایا کہ صدقہ دینے والا،گویا خدا کو قرض دینے والا ہے۔یعنی جیسے قرض دینے والے کو اطمینان ہوتا ہے کہ اُسے اُس کا مال واپس مل جائے گا ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والا مطمئن رہے کہ اسے خرچ کرنے کا بدلہ یقینا ًملے گا اوروہ بھی معمولی نہیں، بلکہ کئی گنا بڑھا کر، جو سات سو گنا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی، جیسا کہ سورۃ البقرۃ کی آیت 261 میں ہے۔صدقہ سے مال میں برکت اور آخرت میں اجر وثواب ملتا ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ تعالیٰ عنہ  فرماتے ہیں :جب یہ آیت ”مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا“نازل ہوئی تو حضرت ابودَحداح انصاری رضی اللہُ تعالیٰ عنہ نے عرض کی: یارسولَ اللہ! کیا اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم قرض دیں؟نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہاں اے ابو دحداح! انہوں نے عرض کی: یارسولَ اللہ! اپنا دست اقدس مجھے دکھائیے، حضرت ابو دحداح رضی اللہُ تعالیٰ عنہ نے دستِ اقدس تھام کر عرض کی : میں نے اپنا باغ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بطورِ قرض پیش کر دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ’’ان کے باغ میں 600 کھجور کے درخت تھے اور ان کے بیوی، بچے بھی اسی میں رہتے تھے، حضرت ابو دحداح رضی اللہُ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کے قریب آئے اور اہلِ خانہ کو آواز دی کہ اے اُمِّ دحداح! بیوی نے کہا: جی، میں حاضر ہوں۔ حضرت ابودحداح رضی اللہُ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:چلو، اس باغ سے نکل چلیں، کیونکہ میں نے ا س باغ کو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں بطورِ قرض پیش کر دیا ہے۔(شعب الایمان،3/249،حدیث:3452)

راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب کے منفرد انداز

قرآن مجید میں اِس موضوع پر اتنی آیات ہیں کہ علماء نے اس سے ضخیم کتابیں مرتب کی ہیں، چند صفحات کے مضمون میں اُن کا احاطہ ممکن ہی نہیں۔ چند ایک کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

ترغیب کا پہلا انداز: ”مثال“ انسانی فہم کے قریب اور زیادہ دل نشین ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں مثالوں کے ذریعے راہِ خدا میں خرچ کی ترغیب دی، جیسا کہ خود اوپرعنوان میں بیان کردہ آیت بھی مثال ہی کی صورت ہے اور اس کے علاوہ فرمایا:

(مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱))

ترجمہ: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔ (پ3، البقرۃ:261) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

مثال کی وضاحت یہ ہے کہ جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے، جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے، اِسی طرح جو شخص راہِ خدا میں خرچ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اُسے اُس کے اِخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جَوَّاد ہے، جس کے لیے چاہے، اُسے اِس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے۔

ترغیب کا دوسرا انداز: کئی مقامات پر اللہ تعالیٰ نے راہ ِ خدا میں خرچ کرنے والے کے جذبے، اندازاور صلہ واِنعام کو بیان کرکے ترغیب دی ہے، چنانچہ فرمایا:

(اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ(۲۷۴) )

ترجمہ : وہ لوگ جو رات میں اور دن میں، پوشیدہ اور اعلانیہ اپنے مال خیرات کرتے ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اُن کے رب کے پاس ہے۔ اُن پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(پ 3، البقرۃ:274) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی بہت سے لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا نہایت شوق رکھتے ہیں اور شب و روز خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، یونہی موقع محل کی مناسبت سے کہیں اعلانیہ دیتے ہیں اور کہیں چھپا کر۔

ترغیب کا تیسرا انداز: انسان دوسروں کے عمل سے جذبہ حاصل کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کے ایمان اَفروز واقعات بیان فرما کر ترغیب دی۔ چنانچہ فرمایا:

(وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ)

ترجمہ: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُنہیں خود حاجت ہو۔(پ 28، الحشر: 9) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یہ اَنصار صحابہ کے واقعات کی طرف اشارہ ہے، جنہوں نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں ٹھہرایا، اپنا آدھا مال مہاجروں کو دے دیا اور یوں اِیثار کر کے مہاجرین کواپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ اُنہیں خود بھی مال کی حاجت تھی۔ اس جذبہِ ایثار کا مرتبہِ کمال ملاحظہ کریں کہ حضرت انس رضی اللہُ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بحرَیْن (علاقے)میں جاگیریں بخشنے کے لیے انصار کو بلایا، تو انہوں نے عرض کی :اگر آپ نے یہی کرنا ہے، تو ہمارے قریشی بھائیوں کے لیے لکھ دیجیے، حالانکہ قریش اس وقت نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس نہ تھے۔(بخاری،2 / 102، حدیث: 2377) اِسی جذبہِ ایثار کا واقعہ دوسری جگہ یوں بیان فرمایا:

(وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) )

ترجمہ:اور وہ اللہ کی محبت میں مسکین اور یتیم اور قیدی کوکھانا کھلاتے ہیں۔(پ 29، الدهر: 8) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ترغیب کا چوتھا انداز: باہِمَّت اِنسان کے مزاج میں چیلنج کا مقابلہ کرنا، دشوار اُمور کو سرانجام دینا اور کٹھن کاموں میں ہاتھ ڈال کر بہادری دکھانا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی انسانی نفسیات کے اعتبار سے ترغیب دیتے ہوئے فرمایا:

(فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ٘ۖ(۱۱) وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْعَقَبَةُؕ(۱۲) فَكُّ رَقَبَةٍۙ(۱۳) اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَةٍۙ(۱۴) یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَةٍۙ(۱۵) اَوْ مِسْكِیْنًا ذَا مَتْرَبَةٍؕ(۱۶) )

ترجمہ: پھر بغیر سوچے سمجھے کیوں نہ گھاٹی میں کود پڑا؟ اور تجھے کیا معلوم کہ وہ گھاٹی کیا ہے؟ کسی بندے کی گردن چھڑانا، یا بھوک کے دن میں کھانا دینا، رشتہ دار یتیم کو، یا خاک نشین مسکین کو۔(پ 30، البلد:11...16) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ترغیب کا پانچواں انداز:انسان اپنے ہم جنس یعنی انسان کی پریشانیوں پر دکھ محسوس کرتا ہے اور ایسے مواقع پر مدد نہ کرنے کو نہایت مذموم شمار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محروم طبقے کے ذکر اور اُن کی مدد نہ کرنے پر مذمت کرکے خرچ کرنے کی ترغیب دی۔ چنانچہ فرمایا:

(اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ(۳))

ترجمہ: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کوجھٹلاتا ہے، پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں دیتا۔(پ 30،الماعون:1...3) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور فرمایا:

(كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَۙ(۱۷) وَ لَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِۙ(۱۸))

ترجمہ: ہرگز نہیں، بلکہ تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور تم ایک دوسرے کو مسکین کے کھلانے کی ترغیب نہیں دیتے۔(پ 30،الفجر:18.17) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* (نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی)


Share

Articles

Comments


Security Code