نفس کی تباہ کاریاں

تفسیرِ قراٰنِ کریم

نفس کی تباہ کاریاں

*مفتی محمد قاسم عطاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

(وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰىهَاﭪ(۷) فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰىهَاﭪ(۸) قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰))

ترجمۂ کنزالعرفان: اور جان کی اور اُس کی جس نے اسے ٹھیک بنایا۔پھر اس کی نافرمانی اور اس کی پرہیزگاری کی سمجھ اس کے دل میں ڈالی۔ بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اور بیشک جس نے نفس کو گناہوں میں چھپا دیا وہ ناکام ہوگیا۔

(پ30،الشمس:7تا 10) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر:اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا، جسم و جان کا مجموعہ بنایا، ظاہری و باطنی اوصاف عطا کیے، حق و باطل قبول کرنے کا مَلَکہ دیا، اُس کے وجود میں خیر و شر کی آویزش قائم کی اور اچھائی برائی سمجھنے اور اپنانے کا اختیار دیا، اس تمام حقیقت کو مذکورہ آیات میں فرمایا گیا، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جان کی اور اس خدا کی قسم جس نے اُسے ٹھیک بنایا اور اسے کثیرقوتیں عطا فرمائیں، جیسے بولنے،سننے، دیکھنے کی قوت نیز فکر و خیال اورعلم و فہم کی صلاحیت عطا فرمائی، پھر اُس کے دل میں نافرمانی اور پرہیزگاری کی صلاحیت و بنیاد ڈالی، اچھائی برائی،نیکی اور گناہ سے اُسے باخبر کردیا۔ اس صلاحیت واختیار کے بعد وہ شخص جس نے اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرلیا، وہ یقیناً کامیاب ہوگیا، جبکہ جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں مشغول کرکے معاصی کی ظلمتوں میں چھپادیا، وہ ناکام ہوگیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم (تلاوت کرتے ہوئے) ان آیات پر پہنچتے تو رک جاتے، پھر فرماتے ”اَللّٰہُمَّ آتِ نَفْسِیْ تَقْوَاہَا وَزَکِّہَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ زَکَّاہَا اَنْتَ وَلِیُّہَا وَمَوْلَاہَا یعنی اے اللہ! میرے نفس کو تقویٰ عطا فرما،اس کو پاکیزہ کر،تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے،تو ہی اس کا ولی اور مولیٰ ہے۔

(معجم کبیر، 11/87،حدیث:11191-مسند الشھاب، 2/338، حدیث: 1481)

نفس انسان کا وہ دشمن ہے، جس کا نقصان شیطان سے بھی بڑھ کر ہے، بلکہ خود شیطان کو گمراہ کرنے والی چیز اُس کا نفس تھا۔ نفس کی آرزوئیں بے لگام اور خواہشیں بے شمار ہیں۔ یہ خواہشات بڑھتے بڑھتے اس حد کو پہنچ جاتی ہیں کہ بندگانِ نفس کے لیے اُن کا نفس بمنزلہِ خدا بن جاتا ہے اور بندہ اس کی ہر خواہش پر عمل کرکے خود کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگ جاتی اور آنکھوں پر پردہ پڑ جاتا ہے، جس کی وجہ سے ہدایت و نصیحت انہیں سنائی نہیں دیتی  اور حق کا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ اسی صورت ِ حال کو قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا گیا:

(اَفَرَءَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰى عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰى سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰى بَصَرِهٖ غِشٰوَةًؕ-فَمَنْ یَّهْدِیْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ(۲۳))

ترجمہ: بھلا دیکھو تو وہ جس نے اپنی خواہش کو اپنا خدا بنالیا اور اللہ نے اسے علم کے باوجودگمراہ کردیا اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا تو اللہ کے بعد اسے کون راہ دکھائے گا؟تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے؟(پ25، الجاثیۃ:23) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نفس کی اِن ہلاکت خیز کارستانیوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار اِس کی طرف سے متنبہ کیا ہے، چنانچہ حضرت یوسف علیہ الصَّلوٰۃ والسَّلام کی زبانِ مبارک سے یہ حقیقت یوں تعلیم فرمائی:

(وَمَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳))

ترجمہ: اور میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا، بیشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے، بیشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔(پ13،یوسف:53) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

برائیوں کی طرف دعوت دینے والے نفس کو ”نفسِ اَمَّارہ“ کہتےہیں۔ نفس اَمَّارہ کا سب سے بڑا ہتھیار”خواہشات کا جال“ ہے، جس میں الجھا کر انسان کولذتوں کا ایسا اَسِیر بناتا ہے کہ بندہ اُس سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتا، اسے نہ خدا یاد رہتا ہے اورنہ آخرت۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خواہشِ نفس کی تباہ کاریاں بکثرت بیان فرمائیں اور نفس کے پیچھے چلنے سے بار بار منع کیا، جیسا کہ ایک جگہ فرمایا:

(وَلَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ۠(۲۶)) ترجمہ: اور نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی، بیشک وہ جو اللہ کی راہ سے بہکتے ہیں، ان کے لیے سخت عذاب ہے اس بنا پر کہ انہوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔(پ23،صٓ:26)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

بلکہ ایسے لوگوں سے بھی دور رہنے کا حکم دیا جو نفسانی خواہشات کا شکار اور خدا کو بھولے ہوئے ہیں، چنانچہ فرمایا:

(وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوٰىهُ وَكَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا(۲۸))

ترجمہ: اور اس کی بات نہ مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔(پ 15،الکھف:28) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

نبیِّ رحمت، صاحبِ کتاب و حکمت، شفیع ِ امت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہلاک کرنے والی چیزوں میں نفس کو شمار کیا، چنانچہ فرمایا:تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں (1)وہ بخل جس کی اطاعت کی جائے (2)وہ نفسانی خواہشات جن کی پیروی کی جائے (3)آدمی کا اپنے آپ کو اچھا سمجھنا۔(شعب الایمان،1/471، حدیث:745)

ایک حدیث مبارک میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نفسانی خواہشات اور انسان کی کیفیات کو اس قدر کھول کر بیان فرمایا کہ سمجھ دار کے لیے وہ ایک حدیث ہی نفس کی شرارتوں سے بچنے کے لیے کافی ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب اللہ تعالیٰ نے جنت پیدا کی تو حضرت جبریل علیہ السّلام سے فرمایا:”جاؤ اسے دیکھو۔“ وہ گئے اور جنت اور جو نعمتیں اس میں جنتیوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے تیار کی ہیں، اُنہیں دیکھا، پھر آئے اورعرض کی: ”یا رب! تیری عزت کی قسم، جو (اس کے بارے میں) سنے گا، وہ اس میں داخل ہوگا(یعنی اس میں داخل ہونے کی ضرور کوشش کرے گا)۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو مَشَقَّتوں سے ڈھانپ دیا(یعنی جنت میں جانے کے لیے شریعت کے احکام کی مشقتیں برداشت کرنی ہوں گی) اور(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا: ”اے جبریل! جاؤ اسےدیکھ کر آؤ۔“ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے اورعرض کی:”یارب! تیری عزت کی قسم، مجھے خطرہ ہے کہ جنت میں کوئی داخل نہ ہوسکے گا۔“ پھر جب اللہ تعالیٰ نے آگ (جہنم) پیدا کی تو فرمایا:’’اے جبریل! جاؤ اور اسے دیکھو۔“ وہ گئے اور اسے دیکھا، پھر آئے اورعرض کی: ”یارب! تیری عزت کی قسم،جو اس کے بارے میں سنے گا، وہ اس میں داخل نہ ہوگا (یعنی اس سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے گا)۔“ اللہ تعالیٰ نے اسے لذّتوں سے گھیر دیا (یعنی جو نفس کی ناجائز لذتوں میں پڑے گا، وہ جہنم میں جائےگا)، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اے جبریل! اسے دیکھو۔“ وہ گئے اور اسے دیکھ کرعرض کی: ”یارب! تیری عزت کی قسم، مجھے خطرہ ہے کہ اس میں داخل ہوئے بغیر کوئی نہ بچے گا۔“(ابو داؤد،4/312، حدیث:4744)

درسِ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت جیسی عظیم جگہ میں داخلہ خواہشات نفسانی سے بچنے پر موقوف کیا ہے اور جہنم میں داخل ہونے سے نجات بھی خواہشات سے بچنے ہی پر موقوف رکھی ہے، لہٰذا خدا کی بارگاہ میں کامیابی کا حصول نفس کو برائیوں سے پاک کرنے میں ہے، جبکہ نفس کو گناہوں میں چھپا دینا، خواہشات کو بے لگام چھوڑ دینا، ہلاکت اور ناکامی کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر اسے یوں بیان فرمایا:

(فَاَمَّا مَنْ طَغٰى(۳۷) وَاٰثَرَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا(۳۸) فَاِنَّ الْجَحِیْمَ هِیَ الْمَاْوٰى(۳۹) وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰى(۴۰) فَاِنَّ الْجَنَّةَ هِیَ الْمَاْوٰى(۴۱))

ترجمہ:تو بہرحال وہ جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تو بیشک جہنم ہی (اس کا) ٹھکانہ ہے اور رہا وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا۔ تو بیشک جنت ہی (اس کا) ٹھکانہ ہے۔ (پ30،النٰزعٰت:37تا41) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

یعنی جس شخص نے سرکشی اختیار کی، نافرمانی میں حد سے گزرا، دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دی اور اپنی نفسانی خواہشات کا غلام بنا، تو بیشک جہنم ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے، جبکہ وہ شخص جو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور قیامت کی پیشی سے ڈرا اور اس نے اپنے نفس کو حرام چیزوں کی خواہش سے روکا، تو بیشک جنت ہی اس شخص کا ٹھکانہ ہے۔

نفس کو برائیوں سے پاک کرنے کا طریقہ:

اوپر کی آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کو برائیوں سے پاک کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ”مجاہدہ“ ہے، یعنی نفس کی من مانی کے خلاف کرنا۔ نفس کی اکثر خواہشات بری ہوتی ہیں، اُن سے نفس کو روکنا اور اتنا روکنا کہ نفس گناہ سے رُکنے کا عادی ہوجائے اور نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع کرنا زندگی کا ترجیحی عمل بن جائے۔ اِسی سے ایمان کامل ہوتا ہے اور اسی سے آخرت کی کامیابی نصیب ہوتی ہے۔ سرکارِدوعالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہوجائے۔“(شرح السنہ، 1/85،حدیث:104) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَیَخْشَ اللّٰهَ وَیَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲))

ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اور اس (کی نافرمانی) سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(پ18،النور:52) (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

عبادات کی پابندی، نفس کے دبانے اور اسے مغلوب کرنے ہی کی صورتیں ہیں کہ نفس نماز، روزے، زکوٰۃ وغیرہا سے بھاگتا ہے اور قوتِ ارادی استعمال کرکے جب عبادات کی پابندی کی جائے تونفس مغلوب ہوکر مطیع بن جاتا ہے۔ اس لئے نفس پر قابو پانے کاایک مفید طریقہ عبادات کی کثرت بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں نفسانی خواہشات کی پیروی سے بچنے اور قرآن و حدیث کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگرانِ مجلس تحقیقات شرعیہ، دار الافتاء اہلِ سنّت، فیضان مدینہ، کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code