حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو یاد کرو (قسط:01)

تفسیر قراٰن کریم

حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو یاد کرو (قسط:01)

*مفتی محمد قاسم عطّاری

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:

(وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ اِبْرٰهِیْمَ۬ؕ-اِنَّهٗ كَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا(۴۱))

ترجمہ کنزالعرفان:اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو، بیشک وہ بہت ہی سچے نبی تھے۔(پ 16،مریم: 41)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

تفسیر: اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کو یاد کرنے کا حکم دیا، کیونکہ وہ خدا کے نبی، رسول، مقرب اور محبوب بندے ہیں۔مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کو یاد کرنے کی ایک حکمت ”انعامِ الٰہی“ ہے کہ اچھی شہرت، نیک چرچا، تعریف و توصیف خدا کی طرف سے بندے پر انعام ہے کہ خدا لوگوں کے دلوں میں اُن کی محبت اور زبانوں پرذکر جاری فرمادیتا ہے۔ مقبولانِ بارگاہِ الٰہی کو یاد کرنے کی دوسری حکمت اُن کی سیرت، کردار اور حسن ِ عمل کی پیروی کی طرف لوگوں کو ترغیب دینا ہے، کیونکہ کاملین کی پیروی انسان کو کامل بنادیتی ہے۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام اعلیٰ درجے کے کامل الایمان بندوں میں سے ہیں۔ آئیے! قرآن مجیدکے حکم(وَاذْكُرْ، اور یاد کرو) پر عمل کرتے ہوئے، قرآن مجید کی روشنی میں انہیں یاد کرتے ہیں۔

 ایک کامل بندہ ِمومن کے بیسیوں اوصاف ہوتے ہیں، جو قرآن و حدیث کا علم رکھنے والوں پر رَوشن ہیں: مثلاً، ایمانِ کامل، توحیدپر پختگی، محبتِ الٰہی، اِحقاقِ حق واِبطالِ باطل، دعوت الی اللہ یعنی لوگوں کو اللہ کی طرف بلانا،آزمائشوں کا مقابلہ، جان، مال اور اولاد کی قربانی،اِستقامت، رجوع الی اللہ، صبر، شکر، حِلم اور مخلوق پر شفقت وغیرہا۔ حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی ذات میں یہ تمام اوصاف بدرجہِ اتم پائے جاتے ہیں۔

ایمان کامل:

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۱))

ترجمہ کنزالعرفان: بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔(پ 23، الصّٰٓفّٰت: 111(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

توحیدپر پختگی:

حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی قوم بتوں کے علاوہ ستاروں، چاند اور سورج کی پوجا کرتی تھی۔ آپ علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اُن تمام مظاہر ِ کائنات کا مشاہدہ کرکے قوم کے سامنے کھلم کھلا اعلان ِ توحید کرتےہوئے فرمایا کہ میں اِن تمام چیزوں سے بیزار ہوں، جنہیں اے میری قوم! تم خدا کا شریک ٹھہراتے ہو۔ قرآن مجید نے اسے یوں بیان فرمایا:

(فَلَمَّا جَنَّ عَلَیْهِ الَّیْلُ رَاٰ كَوْكَبًاۚ-قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَاۤ اُحِبُّ الْاٰفِلِیْنَ(۷۶) فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّیْۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَ قَالَ لَىٕنْ لَّمْ یَهْدِنِیْ رَبِّیْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّیْنَ(۷۷) فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّیْ هٰذَاۤ اَكْبَرُۚ-فَلَمَّاۤ اَفَلَتْ قَالَ یٰقَوْمِ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ(۷۸))

ترجمہ کنزالعرفان: پھر جب ان پر رات کا اندھیرا چھایا تو ایک تارا دیکھا، فرمایا : کیا اسے میرا رب ٹھہراتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب چاند چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اگر مجھے میرے رب نے ہدایت نہ دی ہوتی تو میں بھی گمراہ لوگوں میں سے ہوتا۔ پھر جب سورج کو چمکتا دیکھا تو فرمایا: کیا اسے میرا رب کہتے ہو؟یہ تو ان سب سے بڑا ہے پھر جب وہ ڈوب گیا تو فرمایا: اے میری قوم! میں ان چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم (اللہ کا) شریک ٹھہراتے ہو۔ (پ 7، الانعام: 76تا 78)  (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

احقاق حق و ابطالِ باطل:

حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی قوم نہ صرف مشرک و بت پرست تھی، بلکہ جنون کی حد تک بتوں کو چاہنے والی تھی، لیکن آپ عَلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے ہر طرح کی ملامت اور اندیشے سے بے خوف اور خدا پر کامل توکل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ نہیں، بلکہ بار بار اپنی قوم کے سامنے توحید کی حقانیت اور بتوں کی خدائی کا بطلان بیان فرمایا۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖۤ اِنَّنِیْ بَرَآءٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَۙ(۲۶) اِلَّا الَّذِیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّهٗ سَیَهْدِیْنِ (۲۷))

ترجمہ کنزالعرفان: اور جب ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: میں تمہارے معبودو ں سے بیزار ہوں۔ مگر وہ جس نے مجھے پیدا کیا تو ضرور وہ جلد مجھے راستہ دکھائے گا۔(پ 25،الزخرف:26، 27)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور ایک مقام پر حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے فرمایا:

(اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ(۷۹))

ترجمہ کنزالعرفان: میں نے ہر باطل سے جدا ہو کر اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان اور زمین بنائے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔(پ 7، الانعام:79)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

دعوت الی اللہ(خدا کی طرف بلانا):

حضرت سیدنا ابراہیم علیٰ نَبِیّنا وعلیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے پوری زندگی اپنی مشرک قوم اور اس کے بعد اہلِ ایمان کے سامنے جو فریضہ سب سے زیادہ انجام دیا، وہ دینِ حق کی دعوت ہی تھا اور اس کے لیے آپ علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے مختلف انداز میں قوم کو سمجھایا۔ ایک جگہ فرمایا:

(اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا تَعْبُدُوْنَ(۷۰) قَالُوْا نَعْبُدُ اَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عٰكِفِیْنَ(۷۱) قَالَ هَلْ یَسْمَعُوْنَكُمْ اِذْ تَدْعُوْنَۙ(۷۲) اَوْ یَنْفَعُوْنَكُمْ اَوْ یَضُرُّوْنَ(۷۳))

ترجمہ کنزالعرفان: جب اس نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے فرمایا: تم کس کی عبادت کرتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں، پھر ان کے سامنے جم کر بیٹھے رہتے ہیں۔ فرمایا: جب تم پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری سنتے ہیں ؟یا تمہیں کوئی نفع یا نقصان دیتے ہیں؟(پ 19، الشعرآء:70تا 73)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

پھر خدا کی شان بیان کرتے ہوئے مزید فرمایا:

(قَالَ اَفَرَءَیْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ(۷۵) اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَ٘ۖ(۷۶) فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّیْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۷۷)الَّذِیْ خَلَقَنِیْ فَهُوَ یَهْدِیْنِۙ(۷۸) وَ الَّذِیْ هُوَ یُطْعِمُنِیْ وَ یَسْقِیْنِۙ(۷۹) وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِﭪ(۸۰) وَ الَّذِیْ یُمِیْتُنِیْ ثُمَّ یُحْیِیْنِۙ(۸۱))

ترجمہ کنزالعرفان: ابراہیم نے فرمایا: کیا تم نے ان (بتوں) کے بارے میں غور کیاجن کی تم اور تمہارے پہلے آباء و اَجْدادعبادت کرتے رہےہیں؟ بیشک وہ سب میرے دشمن ہیں سوائے سارے جہانوں کے پالنے والے کے۔ جس نے مجھے پیدا کیا تو وہ مجھے ہدایت دیتا ہے۔اور وہ جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔ اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔ اور وہ جومجھے وفات دے گا پھر مجھے زندہ کرے گا۔(پ 19، الشعرآء:75تا 81)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

اور نمرود کے سامنے آپ علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام نے لاجواب انداز میں خدا کی عظمت واُلوہیت کا بیان فرماکر دعوتِ توحید دی، چنانچہ قرآن مجید میں ہے:

(قَالَ اِبْرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ یَاْتِیْ بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَاْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَۚ(۲۵۸) )

ترجمہ کنزالعرفان: ابراہیم نے فرمایا: تو اللہ سورج کو مشرق سے لاتا ہے پس تو اسے مغرب سے لے آ۔ تو اس کافر کے ہوش اڑ گئے اور اللہ ظالموں کوہدایت نہیں دیتا۔(پ 3، البقرۃ:258)

(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* نگران مجلس تحقیقات شرعیہ، دارالافتاء اہل سنت، فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code