ملکِ شام کا تعارف و فضائل (قسط:01)

تاریخ کے اوراق

ملک شام کا تعارف و فضائل ( قسط : 01 )

*مولانا محمد آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2023ء

رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بادشاہت کا علاقہ ، حضراتِ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سَرزمین ، اَبدالوں کا دیس اور برکتوں والا ملک ” شام “ دینی اور دنیاوی ہر دو لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا موجودہ سرکاری نام ” الجمہوریۃ العربیۃ السوریۃہے ، حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی ظاہری زندگی ہی میں ملکِ شام  کے فتح ہونے کی غیبی خبروبشارت دے دی تھی کہ عنقریب شام فتح ہوجائے گا۔  [1]چنانچہ خلافتِ صدیقی میں شام فتح ہونے کی ابتدا ہوئی اور خلافتِ فاروقی میں وہ مکمل فتح ہوگیا حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔[2]   ملکِ شام کی فتوحات اور وہاں اسلامی حکومت قائم ہونے سے دینِ اسلام کو بےحد قوت و شوکت اور اسلامی ریاست کو زبردست وسعت و برکت حاصل ہوئی۔ ہم یہاں اس عظیم ملک کی عظمت و شان اور اہمیت و حیثیت کو بیان کریں گے۔

شام سے مراد : کتبِ سِیَر و مَغازی میں شام کا اطلاق تین علاقوں پر ہوتا ہے :  ( 1 ) عرب کے عرف میں شمال کی جہت میں جو بھی علاقہ ہے اُسے شام کہا جاتا ہے  ( 2 ) کچھ عام لوگوں کے عُرف میں شام سے مراد صرف دمشق ہے اور  ( 3 ) تاریخی لحاظ سے جسے شام کہا جاتا ہے وہ سوریہ ، اردن ، لبنان اور فلسطین پر مشتمل علاقہ تھا ، اسے سُورِیَّۃُ الْکُبْریٰ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں  کا ملکِ شام میں سب سے پہلے داخلہ غزوۂ مُوتہ کے سلسلے میں حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانۂ اقدس میں ہوا ، پھر زمانۂ فاروقی میں شام کے تمام شہر فتح ہوگئے  اور آج شام عرب کے قدیم ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے ، یہ ایسی بستیوں پر مشتمل ہے جو ایک دوسرے سے ملی ہوئی ہیں ، وہاں جاری نہریں ہیں اور تر و تازہ و سرسبز کھیت ہیں۔[3]

شام نام کیسے پڑا؟مؤرخین کے مطابق اس ملک کا نام شام رکھے جانے کی کئی وجوہات ہیں ، ان میں سے ایک یہ بیان کی جاتی ہے کہ یہ نام حضرت نوح علیہ السّلام کے بیٹے ” سام “ کے نام سے پڑا کیونکہ یہی وہ پہلے شخص ہیں جو اس زمین پر تشریف لائے ۔ عجمی لفظ کی تبدیلی کے سبب لفظِ ” سام “ کی سین کو شین کردیا گیا۔[4]

ملکِ شام کے فضائل پر احادیثِ مبارکہ : کسی علاقے وخطے کی فضیلت اسی سے ظاہر ہوجاتی ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی عظمت ورفعت کو اپنی زبانِ حق ترجمان سے بیان فرمادیا ہو اور ملکِ شام بھی ایساہی ایک ملک ہے کہ کثیر احادیثِ مبارکہ اس کی فضیلتوں کو واضح کرتی ہیں ، یہاں چند ذکر کی جاتی ہیں :

شامی مسلمانوں کے لئے برکت کی دعا : حضرت عبداللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضورِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا کی : اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا یعنی اے اللہ پاک! ہمارے شام میں برکت دے اور اے میرے پروردگار! ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ نجد والوں نے عرض کی : اور ہمارے نجد میں بھی۔حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پھر یہی دعا فرمائی : اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَامِنَا ، وَبَارِكْ لَنَا فِي يَمَنِنَا۔ وہ پھر بولے : اور ہمارے نجد میں بھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور وہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔[5]

 یعنی خدایا ہمارے شام کے مسلمانوں کے دین و دنیا میں برکتیں عطافرما۔ دعا میں شام کو یمن پر اس لئے مقدم فرمایا کہ شام ہی میں قیامت قائم ہوگی ، وہ ہی فلسطین سے متصل ہے اور فلسطین میں بیت المقدس عمان وغیرہ واقع ہیں ، چالیس ابدال وہاں ہی رہتے ہیں ، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مدینہ منورہ بھی شام ہی کا ایک شہر ہے بہرحال شام بہت افضل علاقہ ہے۔[6]

اللہ پاک کا چنا ہوا اور رحمت بھراملک : حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ملک شام اللہ پاک کا چُنا ہوا شہر ہے اور وہ اپنے چنے ہوئے بندوں کو اس میں جمع فرمادے گا۔[7]  ایسا کیوں نہ ہو کہ رحمت والے فرشتے اس ملک پر اپنے پر پھیلائے رہتے ہیں۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن ہم حاضر تھے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :  ( ملکِ )  شام کے لئے خوشخبری ہے ، بے شک رحمٰن عزوجل کے فرشتے اس  پر اپنے پر پھیلائے رہتے ہیں۔[8]فرشتوں کا مقرر ہونا حفاظت کے لئے بھی ہے ، چنانچہ اس حدیثِ پاک کی شرح کرتے ہوئے حکیمُ الْاُمّت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : چونکہ چالیس ابدال ہمیشہ شام کے شہر دمشق میں رہیں گے اس لئے وہاں فرشتے حفاظت کے لئے مقرر ہیں۔ معلوم ہوا کہ اللہ والوں کی برکت سے ملک میں حفظ و امان رہتی ہے۔ خیال رہے کہ اس سے یہ لازم نہیں کہ شام میں کبھی کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ہاں دوسرے مقامات سے کم یا وہاں کفر و گناہ کم ہوں گے جیسے ہر انسان کے ساتھ حفاظتی فرشتے رہتے ہیں مگر پھر بھی انسان کو تکلیف پہنچ جاتی ہے کہ یہ تکلیف رب تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے اس وقت فرشتے حفاظت نہیں کرتے۔[9]

شام والوں کے ساتھ رہنے کا حکم : حضرت اِبنِ حوالہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : عنقریب یہ صورت پیش آئے گی کہ تمہارے مختلف لشکر ہوجائیں گے۔ ایک شام کا لشکر ، ایک یمن کا لشکر اور ایک عراق کا لشکر۔ حضرت اِبنِ حوالہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ! اگر میں یہ صورتحال پاؤں تو کس کو اختیار کروں؟ ارشاد فرمایا : شام والوں کے ساتھ رہنا کیونکہ وہ اللہ کی زمین میں بہتر ہو گی اور اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو اس میں جمع کردے گا ، اگر تمہیں یہ قبول نہ ہو تو یمن والوں کے ساتھ رہنا اور اپنے حوضوں سے پانی پینا اور اللہ پاک نے شام اور اس کے رہنے والوں کا میری خاطر ذمہ لے لیا ہے۔[10]شام والوں کے ساتھ رہنے کا حکم اس لئے دیا کیونکہ فتنوں کے دور میں ایمان وعافیت  کا مَقام ملکِ شام ہوگا۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے : سن لو! جب فتنے واقع ہوں گے تو ایمان ملکِ شام میں ہوگا۔[11]

شام والے غالب رہیں گے : حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے ممبر پر بیان کیا کہ میں نے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا : میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم کو قائم رکھے گا ، انہیں رُسوا کرنے یا ان کی مخالفت کرنے والا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ پاک کا حکم وفیصلہ آجائے اور وہ لوگوں پر غالب رہیں گے۔یہ روایت سن کر مالک بن یخامرسکسکی نے کھڑے ہوکر عرض کی : امیرالمؤمنین! میں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو فرماتے سنا ہے کہ اس گروہ سے مراد اہلِ شام ہیں ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اونچی آواز میں فرمایا : یہ مالک گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ اس فرمانِ رسول میں گروہ سے مراد اہلِ شام ہیں۔[12]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، شعبہ تراجم ، المدینۃُ العلمیہ  Islamic Research Center



[1] مسند احمد ، 37 / 9 ، حدیث : 22323

[2] مراٰۃالمناجیح ، 8 / 585 ، ملخصاً

[3] معجم المعالم الجغرافیۃ فی السیرۃ النبویۃ ، ص167

[4] معجم البلدان ، 3 / 117

[5] ترمذی ،  5 / 496 ، حدیث : 3979-بخاری ، 4 / 440 ، حدیث : 7094-مسند احمد ، 2 / 460 ، حدیث : 5994

[6] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 578

[7] معجم کبیر ، 8 / 171 ، حدیث : 7718-مستدرک ، 5 / 713 ، حدیث : 8602-تاریخ ابن عساکر ، 1 / 119

[8] ترمذی ، 5 /  497 ، حدیث : 3980-معجم کبیر ، 5 / 158 ، حدیث : 4933

[9] مراٰۃ المناجیح ، 8 / 580

[10] تاریخ ابن عساکر ، 1 / 75- ابو داؤد ، 3 / 7 ، حدیث : 2483

[11] مستدرک ، 5 /  712 ، حدیث : 8601

[12] مسنداحمد ، 6 / 32 ، حدیث : 16930


Share

Articles

Comments


Security Code