مدینہ طیبہ کی مبارک مسجدیں

تاریخ کے اوراق

مدینہ طیبہ کی مبارک مسجدیں(قسط :02)

*مولانا آصف اقبال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2024ءمسجد یں اسلام کا شعار ہیں، اسلامی قلعے ہیں، دینی مراکز ہیں اور اسلام کی ترویج واشاعت کے بنیادی ادارے ہیں، مدینۂ منورہ میں مسجد نبوی شریف کے علاوہ بھی بعض مسجدیں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں جن کا اپنا ایک علیحدہ تشخص ہے، ان سے کئی حَسِین وایمان افروز یادیں وابستہ ہیں۔بعض متبرک و یادگار مسجد وں کا ذِکر خیر یہاں کیا جاتا ہے:

(1)مسجد نبوی: وہ مسجد جس کی تعمیر میں امام الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بنفس نفیس حصہ لیا، اس میں ایک نماز کا ثواب 50 ہزار نمازوں کے برابر ہے،([1])اس میں 40 نمازیں پڑھنے والے کے لئے دوزخ اور منافقت سے آزادی کی بشارت ہے،([2])اس میں ایک جمعہ مسجد حرام کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ایک ہزار جمعے ادا کرنے سے اور اس میں ایک رمضان گزارنا دیگر مساجد میں ایک ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے([3])اور یہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں بالخصوص مواجہۂ شریفہ حضور سیدالشافعین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں، امام ابن الجزری فرماتے ہیں: دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!([4]) یوں ہی منبراطہر اور مسجد اقدس کے ستونوں کے پاس۔([5])

(2)مسجد قُبا:یہ متبرک مسجد شہر مدینہ طیبہ سے تین کلو میٹر جنوب مغرب کی جانب قبا نامی گاؤں میں واقع ہے، اللہ پاک نے قراٰنِ پاک کی سورۃ التوبہ، آیت نمبر108 میں اس کی شان وعظمت کو بیان فرمایا، اس کی بنیاد حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے رکھی، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر ہفتے کوکبھی پَیدل تو کبھی سُواری پر مسجِد قُبا تشریف لے جاتے تھے۔([6]) اس میں نماز پڑھنے والے کو عمرے کا ثواب ملتا ہے۔([7])امیرالمؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: اگر یہ مسجِد دُور دراز عَلاقے میں ہوتی تب بھی ہم اُونٹوں کے جگرفنا کر دیتے (یعنی ہم اس کی زیارت کے لئے سفر ضَرور کرتے )۔ ([8])

(3)مسجد فَتح:مدینے شریف کے شِمال مغرِبی طرف سَلْع پہاڑ کے دامَن میں پانچ مسجِدیں واقع ہیں جن میں ایک مسجِد ”الْفَتح“ ہے۔ غَزوۂ اَحْزاب(غزوہ خندق) کے موقع پر رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مسجدُ الفَتْح کے مقام پر پیر، منگل، بدھ تین دن مسلمانوں کی فَتح و نُصرَت کیلئے دُعا کی تو بدھ کے دن ظُہْر و عَصْر کے درمیان فَتْح کی بِشارت ملی۔حضرت جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جب مجھے مشکل پیش آتی ہے تو مسجدِ فتح میں جاکر دُعا مانگتا ہوں تو مشکل حل ہوجاتی ہے۔([9])

(4)مسجد غَمامَہ:مدینۂ منورہ کی اونچے گنبدوں والی ایک خوب صورت مسجِد، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سِن 2ہجری میں اس مقام پر کھلے میدان میں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کی نمازیں ادا فرمائیں، اسی جگہ حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بارِش کے لئے دُعا کی تو فوراً بادل چھا گئے اور بارش برسنی شُروع ہوگئی۔ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ نے یہاں مسجد تعمیر کروائی جس کا نام غمامہ رکھا گیا کیونکہ بادَل کو عَرَبی زَبان میں غَمَامَہ کہتے ہیں۔([10])

(5)مسجد اِجابَہ: یہ مسجِد جنّت البقیع کی شِمال مشرِقی جانِب واقِع ہے۔ یہاں حضور نبیِّ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک بار دو رَکعَت نَماز ادا فرمائی اور تین دعائیں کیں، پہلی دوقبول ہوئیں اور تیسری سے روک دیا گیا۔ وہ تین دُعائیں یہ تھیں: (۱)اے اللہ پاک! میری اُمت قحط سالی کے سبب ہلاک نہ ہو۔ (۲)اے اللہ پاک! میری اُمت پانی میں ڈوب کر ہلاک نہ ہو۔ (۳)اے اللہ پاک! میری اُمت آپس میں نہ لڑے۔ ([11])

(6)مسجد سجدہ:یہ اُس مقام پر واقع ہے جہاں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بہت طویل سجدہ کیا، یہاں حضرت جبرائیل علیہ السّلام یہ بشارت لائے کہ کیا آپ کو یہ بات خوش نہیں کرتی کہ اللہ پاک فرماتاہے کہ جو آپ پر دُرُود پاک پڑھے گا میں اس پر رَحمت نازِل فرماؤں گا اور جو آپ پر سلام بھیجے گا میں اُس پر سلامَتی نازل فرماؤں گا۔([12])

(7) مسجد مُستَراح:احد کی طرف جاتے ہوئے مین روڈ پر واقع ہے، غزوۂ احد سے واپسی پر حضور نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہاں تھوڑی دیر استراحت یعنی آرام فرمایا تھا، اس لئے اِسے مستراح کہا جاتا ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہ مسجد بنی حارثہ کہلاتی تھی کیونکہ وہاں قبیلہ بنی حارثہ اوسی آباد تھا۔ حضرت حارث بن سعد عبید حارثی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہماری مسجد میں نماز ادا فرمائی تھی۔([13])

(8)مسجد جمعہ:ہجرت کے موقع پر جب حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قبا شریف سے فارغ ہوکر مدینۂ منورہ روانہ ہوئے، دن خوب روشن ہوچکا تھا،اسی دوران قبیلۂ بنی سالم بن عوف میں نماز جمعہ کا وقت آگیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام کے ساتھ پہلی نماز جمعہ ادا فرمائی، جہاں نَماز ادا کی گئی وہاں باقاعِدہ مسجد بنا لی گئی اور اس کا نام مسجد جمعہ قرار پایا۔([14])

(9)مسجد ذُوالْحُلَیْفَہ:یہ مسجد اُس مقام پر واقع ہے جسے آج کل ابیار علی کہتے ہیں، یہ اہلِ مدینہ کا میقات ہے، مسجدِ ذُوالْحُلَیفہ کا پُرانا نام ”مسجدِشَجَرہ“ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مدینۂ منوَّرہ سے ”شَجَرہ“ کے راستے سے باہر تشریف لے جاتے اور مُعَرَّس کے راستے سے مدینے آتے اور جب مکّۃُ المکرَّمہ تشریف لے جاتے تو ”مسجدِشَجَرہ“ میں نَماز پڑھتے تھے اور جب واپَس تشریف فرما ہوتے تو ذُوالْحُلَیفہ میں نالے کے بیچ میں نماز ادا کرتے تھے،وہیں رات بھرقِیام رہتا یہاں تک کہ صبح ہوتی۔([15]) مسلم شریف کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ذُوالحُلَیفہ میں رات بسر فرمائی اور اس کی مسجِد میں نَماز پڑھی۔([16]) اور ایک روایت کے مطابق حجۃ ُ الوَدَاع کے لئے تشریف لے جاتے وقت یہاں مسجد میں دو رَکعت پڑھیں۔([17])

(10)مسجدِ قِبْلَتَیْن: یہ مسجد وادیِ عقیق کے میدان ”العرصہ“ کے قریب واقع ہے،حضرت عثمان غنی رضی اللہُ عنہ کا کنواں بیررومہ اس مسجد کی سیدھی جانب ہے۔پہلے یہ مسجد بنوسلیم کے نام سے معروف تھی، ہجرت کے 17ویں مہینے 15 رجب المرجب، ہفتے کے دن حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہاں ابھی نماز ظہر کی دو رکعتیں ہی ادا فرمائی تھیں کہ قبلے کی تبدیلی کا حکم آگیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے باقی دو رکعت خانۂ کعبہ کی طرف منہ کرکے ادا فرمائیں۔اس لئے اس کا نام مسجد قبلتین یعنی دو قبلوں والی مسجد ہوا۔([18])

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ شعبہ تراجم، اسلامک ریسرچ سنٹر المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])ابن ماجہ،2/176،حدیث:1413

([2])مسند احمد، 4/311،حدیث:12584

([3])شعب الایمان، 3/486، حدیث: 4147

([4])الحصن الحصین،اماکن الاجابۃ، ص31

([5])فضائل دعا،ص133تا135

([6])بخاری، 1/402، حدیث:1193

([7])ترمذی،1/348، حدیث:324

([8])کنزالعمال، 7/62،حدیث:38174

([9])مسنداحمد،5/87،حدیث:14569

([10])عاشقان رسول کی 130 حکایات،ص299

([11])مسلم،ص1183،حدیث:7260

([12])مسند احمد،1/406، حدیث:1662

([13])وفاء الوفاء،2/400

([14])زرقانی علی الموطأ، 1/336

([15])بخاری، 1/516، حدیث:1533

([16])مسلم، ص607،حدیث:1188

([17])مغازی للواقدی، 3/1089، 1090

([18])سبل الہدی والرشاد،3/370


Share