
تاریخ کے اوراق
شعبِ ابی طالب
*مولانا حامد سراج عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مئی 2025ء
جس طرح قراٰنِ پاک آنے والے ہر دور کے لئے سرچشمۂ ہدایت ہے اسی طرح صاحبِ قراٰن اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت بھی پیش آمدہ ہر مسئلے کے درد کا درماں ہے۔ جب حالات سنگین ہوں، بنیادی حقوق بھی سلب ہو جائیں اور تن بتقدیر ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو ایسے میں ایک مسلمان کو اپنے ایمان کی حفاظت اور دین کی تبلیغ میں کیا حکمتِ عملی اپنانی چاہئے؟ شعبِ ابی طالب کا بائیکاٹ اس بارے میں مکمل راہنمائی کرتا ہے۔
بائیکاٹ کی وجوہات:
یہ اعلانِ نبوت کے چھٹے سال کی بات ہے، سال کے اختتام پر قریش کے سینے پر سانپ لوٹ گئے، ہوا یہ کہ حضرت امیر حمزہ رضی اللہُ عنہ جیسے دلیر و بہادر انسان اور حضرت عمر رضی اللہُ عنہ جیسے جری و غیور جوان اپنے دلوں کو اسلام کے نور سے روشن کر کے اس قافلۂ عشق و مستی کے مسافر بن گئے۔ ([1])اسی دوران کافروں کی شاہِ حبشہ کو مسلمانوں کے خلاف ورغلانے کی سفارت بھی ناکامی کا شکار ہوگئی۔([2]) اب انہیں دعوتِ اسلام کو روکنے کی اپنی ساری کوششیں لاحاصل نظر آنے لگیں۔ یوں انہوں نے فیصلہ کیا کہ جب تک مصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی کا چراغ گل نہ کر دیا جائے تب تک ان کی مشکلیں ختم نہیں ہو سکتیں۔([3]) پہلے انہوں نے ابوطالب سے آپ کی حمایت سے دست برداری کے لئے مذاکرات کئے، انہوں نے اتنا دباؤ ڈالا کہ ایک موقع پر آپ کے چچا نے بھی ہتھیار ڈال دیئے اور آپ کو دعوت چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر ڈالی،اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے واشگاف الفاظ میں فرما دیا: کافر میرے ایک ہاتھ پر سورج دوسرے پر چاند لا کر رکھ دیں تب بھی میں اس دعوت سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔ ابوطالب نے آپ کے بلند عزائم اور مضبوط ارادے دیکھے تو پھر سے آپ کی حمایت کا علم بلند کر دیا۔([4]) یہ صورت حال دیکھ کر کافر آپ کو شہید کرنے کی دھمکیاں دینے لگے۔ ابوطالب نےجب مشرکوں کے تیور دیکھے تو اپنے خاندان اور برادری کو حمایت پر ابھارا۔([5]) مکہ میں بنو عبدمناف کے چار گھرانے رہتے تھے۔ بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو عبدِ شمس اور بنو نوفل۔ ان میں پہلے دو آپ کی حمایت کے لئے سامنے آئے اور آخری دو نے قریش کے قبیلوں کی حمایت کا اعلان کیا۔([6])بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب میں سے جو مسلم تھے انہوں نے ایمانی غیرت اور جو کافر تھے انہوں نے خاندانی غیرت کے تحت آپ کی حفاظت کرنے کی ٹھانی اور آپ کو لے کر شعب میں چلے آئے۔([7])
شعب ابی طالب کا جغرافیہ:
شِعْبٌ کے معنیٰ ہوتے ہیں: گھاٹی یعنی دو پہاڑوں کے درمیان کی کھلی جگہ۔ مکہ شریف پورا ہی پہاڑی علاقہ ہے اور یہاں کئی گھاٹیاں ہیں۔ شعبِ ا بی طالب حضرت ہاشم کی ملکیت تھی، ان سے حضرت عبدا لمطلب اور پھر ابو طالب کی مِلک ہوئی، اسی وجہ سے اسے شعب ابی طالب کہتے ہیں۔ یہ گھاٹی دو وجہ سےمشہور ہوئی؛ ایک تو یہاں مسلمانوں کا محاصرہ (یعنی گھیراؤ) ہوا، دوسرا یہیں سےمصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سفرِمعراج کےلئے تشریف لے گئے۔([8])یہ گھاٹی بیت اللہ شریف کے بالکل قریب تھی۔([9]) ایک جدید تحقیق کے مطابق اس کا محل وقوع یوں ہے کہ جبل ابو قبیس اس شعب کے بائیں جانب اور خنادم اس کے دائیں جانب واقع ہے۔ یہ گھاٹی بیت اللہ شریف سے تقریباً تین سو میٹر دور اونچائی پر واقع تھی۔ حضرتِ ہاشم کا کھدوایا ہوا کنواں”بئرِ بَذَّر“ اس گھاٹی کے دہانےپر( یعنی شروع میں) واقع تھا۔([10])اسی کنویں سے اہلِ شعب کی پینے کی ضرورت پوری ہوتی ہوگی۔ اسی گھاٹی میں والدِمصطفیٰ حضرت عبدا للہ کابھی مکان تھا۔([11]) بعد میں خلیفہ ہارون الرشیدکی والدہ نےاسی مکان کو مسجد میں تبدیل کروا دیا۔([12])دورِ جدید کے توسیعی کاموں کی وجہ سے یہ گھاٹی باقی نہیں رہی۔ اب یہاں ایک وسیع میدان ہے۔([13])
بائیکاٹ کرنے کی جگہ:
شعب میں چلے جانے کے بعد مشرکین کو احساس ہوا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ موجود افراد انہیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے، اگر انہوں نے کوئی ناپاک جسارت کی تو خون کی ندیاں بہہ جائیں گی یوں انہوں نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے ”خیف بنی کنانہ“ کے مقام پر اجلاس بلایا۔ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حج فرمانے کے بعد اسی جگہ پر آکر قیام فرما ہوئے جہاں کافروں نے یہ معاہدہ کیا تھا۔([14])اس جگہ قیام فرمانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ رب کی قدرت کو ظاہر کرنا تھا کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں کافروں نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے قسمیں کھائی تھیں آج ان سب جگہوں پر مسلمان فاتح تھےاور ان جگہوں کے مالک تھے۔آج کل اسی جگہ پر مسجد اجابہ ہے۔([15])
بائیکاٹ کا فیصلہ:
اس اجلاس میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بنوہاشم و بنوعبدالمطلب کا سماجی اور معاشی بائیکاٹ کریں گے۔ بنو عبد شمس، بنو نوفل، بنو مخزوم، بنولؤی، بنو زہرہ اور بنو کنانہ جیسے قبیلے آپ کے خلاف اس حلف پر جمع ہوئے۔([16])اس فیصلے میں انہوں نے طے کیا کہ قریش نہ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھیں گے، نہ ان کے ساتھ لین دین رکھیں گے، نہ ان سے شادیاں کریں گے اورنہ ہی ان کے گھر جائیں گے۔ بات کو مزید پختہ کرنے کے لئے انہوں نے اپنی اس ناپاک سازش کے لئے باضابطہ دستاویز بنائی اور اس میں یہ سب کچھ لکھ دیا اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ بنو ہاشم کے ساتھ صلح صفائی کی کوئی بات نہ ہوگی۔([17])سب نے ان شرائط کی پابندی کا وعدہ کیا اور پھر کعبہ شریف کے اندر اس دستاویز کو آویزاں کر دیا۔ ایک روایت کے مطابق یہ دستاویز ابوجہل نے اپنی ماں کو بحفاظت رکھنے کیلئے دے دی۔([18])
بائیکاٹ کی مشکلیں:
اہلِ مکہ کی معیشت کا بنیادی ذریعہ تجارت تھی، جب دیگر اہلِ مکہ نے مل کر بنو ہاشم وغیرہ کا معاشی بائیکاٹ کر دیا تو ایک طرح سے ان کی تجارت پر پابندی لگ گئی۔ اس وجہ سے یہ لوگ زندگی گزارنے کی بنیادی ضرورتوں تک سے محروم ہو گئے۔ یوں یہ بائیکاٹ بنو ہاشم وغیرہ کیلئے بہت بڑی مصیبت اور آزمائش بن کر آیا جس نے انہیں ہلا کر رکھ دیا۔([19]) اس پورے عرصے میں بچے، بوڑھے، مرد اور عورت سب بھوک پیاس کی سختی برداشت کرتے۔ یہاں تک کہ بنو ہاشم کے بچے بھوک پیاس سے ساری ساری رات بلکتے (روتے) رہتے اور ان کی درد ناک آوازیں دور دور تک سنائی دیتیں مگر کچھ مشرکین اتنے سنگ دل تھےکہ رحم کھانا تو دور وہ بچوں کی ان آوازوں پر خوش ہوتے تھے۔([20]) ستم بالائے ستم کہ مشرکین نے اس گھاٹی کی ناکہ بندی بھی کر دی تاکہ کوئی امداد ان تک نہ پہنچ سکے۔ باہر سے کوئی قافلہ سامان بیچنے مکہ آتا تب بنو ہاشم میں سے کوئی اس سے سامان لینے کی کوشش کرتا مگر مشرکین یا تو اس کا پورا سامان پہلے سے خرید لیتے یا قافلے والوں کو مجبور کرتے کہ ان کے ہاتھ سودا مت بیچو! یوں وہ ہاشمی خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ابولہب جو ہاشمی ہونے کے باوجود شعب میں نہ گیابلکہ وہ کفار کے ساتھ تھا وہ اور ولید بن مغیرہ جیسے بے رحم کافروں نے اعلان کر رکھا تھا کہ اگر یہ لوگ کہیں سے سودا خرید رہے ہوں تو کوئی بھی ان سے پہلے سودا خرید لے، پیسے نہ ہوں تب ادھارکر دے، بعد میں ہم ادا کر دیں گے۔ ابولہب تو یہ کرتا کہ جیسے ہی کوئی تجارتی قافلہ مکہ آتا اور مسلمان اس سے کوئی چیز خریدنے پہنچتے تو یہ تاجروں سے کہتا تم اِنہیں اتنے دام بتاؤ کہ یہ کچھ خرید نہ سکیں۔ ساتھ ہی قافلے والوں کو اطمینان دلاتا کہ اپنے نقصان کی فکر مت کرو! اگر تمہارا سامان فروخت نہ ہو سکا اور تمہیں خسارہ ہوا تو اسے میں پورا کروں گا۔ یوں بنو ہاشم کوئی چیز خریدنا چاہتے تو ابولہب کی سازشوں سے انہیں خالی ہاتھ واپس آنا پڑتا۔([21]) اس عرصے میں انہی مشکلات کی وجہ سے کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ یہ بائیکاٹ دراصل ایک طرح سے بغیر اسلحے کی جنگ تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ بنو ہاشم معاشی تنگ دستی میں مبتلا ہو کر یا تو بھوک سے مرجائیں گے یا مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں گے یا انہیں دعوتِ اسلام سے منع کر دیں گے یا انہیں ہمارے بتوں کو برا بھلا کہنے سے روک دیں گے۔
بائیکاٹ کی مدت اور اختتام:
اعلان نبوت کے ساتویں سال (617 عیسوی) محرم شریف کے شروع میں اس محاصرے کا آغاز ہوا اور دسویں سال مسلمان شعب سے باہر نکلے۔([22])اس طرح پورےتین سال شعبِ ابی طالب کے اس دردناک ماحول میں بسر ہوئے۔ بالآخر اللہ پاک نے ایسا انتظام فرمایا کہ یہ معاہدہ خود بخود کالعدم ہوگیا۔ ہوا یہ کہ ایک دن مصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ابوطالب کو بتایا:چچا جان! اللہ پاک کے نام کے سوا معاہدے کی تحریر کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ اب اس میں اللہ پاک کے نام کے سوا باقی کچھ نہیں ہے۔ ابوطالب حیران ہوئے کہ انہیں کیسے پتا چلا؟ کہنے لگے: اَرَبُّکَ اَخْبَرَکَ بِہٰذَا یعنی کیا تمہارے رب نے تمہیں یہ بتایا ہے؟ فرمایا: نَعَمْ! جی ہاں! وہ اسی وقت حرم میں گئےاور لوگوں سے کہا: اےگروہِ قریش! میرے بھتیجے نے مجھے اس طرح خبر دی ہے۔ تم اپنا معاہدہ لاؤ! اگر یہ خبر صحیح نکلی تو تم اس ظلم و سختی سے بازآؤ! جبکہ اگر یہ خبر غلط نکلی تو میں اپنے بھتیجے کو تمہارے حوالے کردوں گا۔ مشرکین نے چونکہ اپنی طرف سے بڑی حفاظت کے ساتھ اس معاہدے کو رکھا ہوا تھا اس لئے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ معاہدے کو کچھ ہو سکتا ہے۔اس لئے بیک زبان کہنے لگے: رَضِیْنَا یعنی جو آپ کہہ رہے ہیں ہم اس پر راضی ہیں۔ پھر انہوں نے جا کر اس معاہدے کو دیکھا تو ان کے ہوش اڑ گئے، کیونکہ جیسا آپ نے ارشادفرمایا تھا حرف بحرف اسی طرح معاملہ تھا۔ یہ عظیم معجزہ دیکھ کر بھی انہیں حق قبول کرنے کی توفیق نہ ملی، بلکہ کہنے لگے:یہ سب ابوطالب کےبھتیجے کےجادو کا کرشمہ ہے۔ کچھ سنگ دل تو ابھی تک اسی بائیکاٹ پرعمل کرنے کی باتیں کرنے لگے مگر کچھ ایسے لوگ جو اس ظلم سے نالاں (پریشان) تھے وہ آڑے آئے اور اس ظالمانہ محاصرے کا اختتام ہوگیا۔([23])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ذمہ دار شعبہ سیرت مصطفےٰ المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments