حضرت سیدنا دانیال علیہ السلام (تیسری اور آخری قسط)

انبیائے کرام کے واقعات

حضرت سیّدُنا دانیال علیہ السّلام ( تیسری اور آخری قسط )

*مولانا ابوعبیدعطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جولائی 2023ء

بنی اسرائیل کو ملی آزادی : ایک قول کے مطابق ملک فارِس کے ایک بادشاہ نے بابِل پر حملہ کرکے بُخْت نَصر کی فوجوں کو شکست دے کر بابل فتح کرلیا اللہ تعالیٰ نے اس بادشاہ کے دل میں بَنی اِسرائیل کےلئے شفقت ڈال دی اس نے انہیں قید سے آزاد کردیا اور حضرت دانیال علیہ السّلام کو اس قوم کا بادشاہ بناکر سب کو ملکِ شام روانہ کردیا۔[1] جبکہ دوسرے قول کے مطابق بخت نصر کے مرجانےکے بعد اس کا بیٹا بادشاہ بنا ، اس نے مالِ غنیمت میں ملے ہوئے بیتُ المقدس کی مسجد کے برتنوں میں شراب پینی شروع کردی ، حضرت دانیال علیہ السّلام نے اسے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا آخر کار حضرت دانیال علیہ السّلام نے فرمایا : تو تین دن میں قتل ہوجائے گا ، بالآخر تین دن بعد اس کے غلام نے اسے قتل کردیا اور بنی اسرائیل بیتُ المقدس کی جانب لوٹ آئے۔[2]

دانائی : آپ نے مختلف بادشاہوں کا دور دیکھا ہے ایک مرتبہ کسی بادشاہ کے سامنے بغیر کلائی کی ایک ہتھیلی ظاہر ہوئی اس پر تین جملے لکھے تھے پھر وہ ہتھیلی غائب ہوگئی ، بادشاہ بڑا حیران ہوا اورکیا لکھا تھا اسے یاد نہ رکھ سکا اس نے آپ علیہ السّلام سے پوچھا توآپ نے فرمایا : بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ! وُزِنَ فَخَفْ اس کا مطلب ہے تیرے اعمال کو بروز ِقیامت میزان میں تولا جائے گا لہٰذاخوف کر ، وَوُعِدَ فَنَجَزَ بادشاہت کا وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا ہوگیا ، وَجُمِعَ فَتَفَرَّقَ تجھےاور تیرے باپ کو ایک بڑی سلطنت دی گئی ، جو اَب بکھر جائے گی۔[3]

اقوال : آپ علیہ السّلام کے حکمت بھرے دو قول ملاحظہ کیجئے : افسوس ہے اس زمانے پرجس میں نیک لوگوں کو تلاش کیا جائے تو صرف اتنی تعداد میں ملیں گے جتنی تعداد کٹی ہوئی کھیتی کے بعد بچ جانے والے خَوشوں کی ہو یا پھل توڑنے والے کے پیچھے بچے ہوئے پھلوں کی ہو۔[4] ایک مرتبہ بُخْت نَصر نے آپ علیہ السّلام سے پوچھا : کس چیز نے مجھے آپ کی قوم پر مسلط کیا ؟ آپ نے فرمایا : اس وجہ سے کہ تیری خطائیں زیادہ تھیں اور میری قوم  ( اپنے رب کی نافرمانیاں کرکے )  اپنی جان پر ظلم کا شکار ہوئی تھی۔[5]

وصیت : بَوَقتِ وصال آپ نے اپنے یہاں کے لوگوں میں کسی کو ایسا نہ پایا جو کتابُ اللہ کی حفاظت اور تعظیم کرپاتا تو آپ نے کتابُ اللہ کو اپنے ربِّ کریم کے سپرد کردیا ، اور بیٹے سے کہا : تم ساحلِ سمندر پر جاؤ اور اس کتاب کو سمندر میں ڈال دو ، بیٹے نے کتاب پکڑی اور ساحل تک آنے جانے میں جتنا وقت لگتا تھا اتنی دیر غائب رہا ، پھر واپس آکر کہنے لگا : میں نے آپ کا کام کردیا ہے ، آپ علیہ السّلام نے فرمایا : کتاب سمندر میں ڈالی تو کیا ہوا تھا ؟ اس نے کہا : میں نے تو کچھ نہیں دیکھا ، آپ نے سخت غصے میں کہا : اللہ کی قسم ! تم نے میرے حکم پر عمل نہیں کیا ، بیٹا کتاب لے کر پھر چلاگیا ، اور اسی طرح واپس آکر کہا : میں نے سمندر میں کتاب ڈال دی ، آپ نے فرمایا : تم نے سمندر میں کیا دیکھا ؟ اس نے کہا : بڑی بڑی موجیں اٹھیں اور آپس میں ٹکرانے لگیں ، آپ پہلے سے بھی زیادہ ناراض ہوئے اور فرمایا : تم نے اب بھی حکم عَدولی کی ہے ، بیٹے نے تیسری مرتبہ کتاب لی اور ساحل پر جاکر کتاب سمندر میں جیسے ہی ڈالی تو سمندر پھٹ گیا اور نیچے کی زمین ظاہر ہوگئی ، پھر زمین پھٹی اور فضا نورانی ہوگئی وہ کتاب اسی نور میں چلی گئی زمین بند ہوگئی اور پانی پھر سے مل گیا ، یہ دیکھ کر بیٹے نے واپس آکر آپ علیہ السّلام کو پوری بات بتادی ، آپ نے فرمایا : تم نے اب سچ کہا ہے ، حضرت دانیال علیہ السّلام کا وصال مبارکہ سُوس شہر میں ہوا۔[6]ایک قول کے مطابق آپ کا وصال بابِل میں ہوا تھا۔[7]

نعش مبارکہ تک مسلمان پہنچے : حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت دانیال علیہ السّلام نے اللہ پاک سے یہ دُعا کی تھی کہ مسلمان ہی ان کی تدفین کریں۔[8] سن19ہجری میں حضرت ابو موسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہ نے سُوس شہر کو فتح کرکے اس کے بادشاہ کو قتل کردیا جب محل کا چکر لگایا تو بہت زیادہ مالِ غنیمت پایا ، اس دوران تالا لگے ہوئے ایک بند کمرے تک جا پہنچے ، مقامی لوگوں سے ارشاد فرمایا : اس میں کیا ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا : اے امیر ! اس میں آپ کے کام کی کوئی چیز نہیں ، ارشاد فرمایا : اب تو جاننا ضروری ہوگیا ہے ، دروازہ کھولو تاکہ میں دیکھوں اس میں کیا ہے ؟ تالا توڑ کر دروازہ کھول دیا گیا ، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اندر داخل ہوئے تو حَوض جیسا ایک بڑا پتھر یا تابوت نظر آیا اس میں سونے کے تاروں سے بنے ہوئے کفن میں ایک میت رکھی ہوئی تھی جس کا سَرکھلا ہوا تھا اور نَسوں اور رَگوں میں خون جوش ماررہا تھا جبکہ ناک ایک بالشت سے بھی بڑی تھی ، میت کی قد آوری اور تَر و تازگی دیکھ کر حضرت ابو موسیٰ اور دیگر مسلمانوں کو بہت حیرت ہوئی۔[9]

سامان : ساتھ میں ایک بکس تھا جس میں ایک کتاب رکھی ہوئی تھی ، ریشم کے دو تھان تھے اور 60 بند مٹکے تھے ہرمٹکے میں دس ہزار  ( درہم )  تھے[10]ساتھ ہی یہ لکھا ہوا تھا کہ جو بھی اپنی حاجات کے لئے مخصوص وقت تک کے لئے اسے لینا چاہے لے لے مگر وقت پر واپس کردے ورنہ اسے بَرص کی بیماری لگ جائےگی۔[11]

بارش طلب کرتے : حضرت ابو موسیٰ اشعری نے پوچھا : تمہاری بربادی ہو ، یہ کس کی میت ہے ؟ شہر والوں نے جواب دیا : یہ عراق میں رہتے تھے ، جب وہاں بارش نہ ہوتی اور قَحط پڑتا تو اہلِ عراق ان کے واسطے سے بارش طلب کرتے تو بارش برس جاتی تھی ایک مرتبہ ہمارے یہاں بھی اہلِ عراق جیسا قحط پڑگیا ہم نے اہلِ عراق سے انہیں مانگا تو انہوں نے انکار کردیا لہٰذا ہم نے اپنے 50 آدمی ان کے پاس رہن رکھوائے اور انہیں یہاں لے آئے ، ان کے واسطے سے بارش مانگی تو بارش برسنے لگی ، پھر ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم انہیں واپس نہیں کریں گے جب سے یہ ہمارے پاس ہی ہیں۔ حضرت ابو موسیٰ اَشعری رضی اللہ عنہ نے تمام صورتِ حال لکھ کر امیرُ المؤمنین حضرت سیّدُنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو آگاہ کردیا ، حضرت عمر فاروق نے تمام اکابر صحابہ کو جمع کرکے رائے مانگی تو حضرت سیّدُنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یہ اللہ پاک کے نبی حضرت دانیال علیہ السّلام ہیں جو زمانۂ قدیم میں بُخْت نَصر اور بعد کے بادشاہوں کے ساتھ رہے۔[12]

فاروقِ اعظم کا مکتوب : حضرت عمر فاروق نے جواباً مکتوب لکھا : یہ اللہ کے نبی  ( دانیال )  علیہ السّلام ہیں ، انہوں نے دعا کی تھی کہ مسلمان ہی ان کے مال کے وارث بنیں۔[13]  ان کے مال کو بیتُ المال میں جمع کردو ، نعش مبارکہ کو بیری کے اور ریحان پھول کے پانی سے غسل دو ، خوشبو لگاؤ کفن پہناؤ ، نمازِ جنازہ پڑھو اور جیسے انبیائے کرام کی تدفین کی جاتی ہے اسی طرح تدفین کردو ،[14]ہم نے ان کی انگوٹھی آپ کو تحفہ میں دی۔[15] اس انگوٹھی کا نگینہ سُرخ پتھر تھا۔[16]ایک روایت میں ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ حضرت دانیال کے جسدِ اَقدس کو دیکھ کر ان سے لپٹ گئے تھے اور بوسہ بھی دیا تھا۔[17]

نعشِ مبارکہ صحیح سلامت رہی : حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں سے پوچھا : ان کی نعشِ مبارکہ کتنے عرصے سے تمہاے پاس ہے ، انہوں نے کہا : 300 سو سال سے ، پوچھا : کیا نعش مبارک میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے ؟ انہوں نے کہا : گدی کے کچھ بالوں کے علاوہ کچھ بھی تبدیلی نہیں ہوئی ہے کیونکہ انبیائے کرام کے اجسام کو نہ درندے کھاسکتے ہیں نہ زمین کی مٹی کھا سکتی ہے۔[18]

 تدفین : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مکتوب میں یہ بھی لکھا تھا کہ ان کی قبر کو چھپادیں تاکہ کسی کو پتا نہ چل سکے۔[19] لہٰذا ایک قول کے مطابق دن میں 13 الگ الگ قبریں کھودی گئیں رات ہوئی تو کسی ایک قبر میں حضرت دانیال علیہ السّلام کی تدفین کی گئی اور باقی قبروں کو  ( رات کے اندھیرے ہی میں )  بند کردیا گیا تاکہ یہاں کے لوگ آپ کی نعش مبارکہ کو کھود کر نہ نکال لیں۔[20]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] سیرت الانبیاء ، ص476 بتغیر

[2] المنتظم فی تاریخ الامم ، 1 / 420

[3] عرائس المجالس ثعلبی ، ص466

[4] حلیۃ الاولیاء ، 4 / 36 ، رقم : 4071

[5] موسوعہ ابن ابی دنیا ، 4 / 436

[6] تاریخ طبری ، 8 / 343

[7] الروض المعطار ، ص329

[8] قصص الانبیاء لابن کثیر ، ص650

[9] عرائس المجالس ثعلبی ، ص467- قصص الانبیاء لابن کثیر ، ص650

[10] تاریخ ابن عساکر ، 58 / 343ملتقطاً

[11] اموال للقاسم ، ص436 ، رقم : 878-کنز العمال ، جز : 12 ، 6 / 217 ، حدیث : 35578

[12] عرائس المجالس ثعلبی ، ص467

[13] تاریخ ابن عساکر ، 58 / 344

[14] اموال للقاسم ، ص436 ، رقم : 878-کنز العمال ، جز12 ، 6 / 217 ، حدیث : 35578-تاریخ ابن عساکر ، 58 / 344

[15] قصص الانبیاء لابن کثیر ، ص651

[16] الروض المعطار ، ص329

[17] اموال للقاسم ، ص436 ، رقم : 878-کنزالعمال ، جز12 ، 6 / 217 ، حدیث : 35578

[18] قصص الانبیاء لابن کثیر ، ص650

[19] قصص الانبیاء لابن کثیر ، ص650

[20] قصص الانبیاء لابن کثیر ، ص649


Share